ہم جمہوریت کے تجربے کو کامیاب ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں

January 25, 2024

8 مارچ1990کوآل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کی آٹھویں سالانہ تقریب تقسیم انعامات کا انعقادہوا۔ مہمان خصوصی اس وقت کی وزیر اعظم پاکستان، محترمہ بے نظیر بھٹو تھیں۔ اے پی این ایس کے صدر میر خلیل الرحمٰن تھے۔اس موقعےپر میر صا حب نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا ۔ان کے خطاب کے چیدہ چیدہ نکات ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں۔ اگرچہ اس خطاب کو تقریبا چونتیس برس گزرچکے ہیں لیکن یوں محسوس ہوتا ہے جیسےیہ آج کی بات ہو۔چناں چہ ان نکات کو زمانۂ حال کے تناظر میں ملاحظہ کریں۔

بینظیر بھٹو صاحبہ! وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان ،آپ کا جمہوری دور حکومت آزادی اظہار کے اس عمل کا نقطہ عروج ہے جس میں اخبارات پر حکومت کی طرف سے بڑی حد تک ایسی کوئی قدغن یا دباؤ نہیں ہے کہ اخبارات وہ بات نہ لکھ اور چھاپ سکیں جسے وہ لکھنا اور چھاپنا مناسب سمجھتے ہوں۔ عین ممکن ہے کہ اس آزادی اظہار کا کچھ نہ کچھ غلط استعمال بھی ہوا ہو یا ہو رہا ہو لیکن طویل عرصے کی گھٹن کے بعد آزادی ملنے کی وجہ سے کہیں کہیں کچھ بے اعتدالی اور عدم توازن کا مظاہرہ ہو جانانا قابل فہم نہیں۔

مجھے امید ہے کہ آزادی صحافت کی یہ فضا برقرار رہی تو ہمارے پریس کے رویہ میں توازن ، اعتدال اور احتیاط کارنگ مزید نمایاں ہو جائے گا اور کوئی شخص بھی حب الوطنی کے تقاضوں اور صحافت کے اعلیٰ اور بلند اصولوں کے منافی کوئی چیز لکھنے اور چھاپنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ ذمہ دار میڈیا آزادی کی فضاہی میں پروان چڑھ سکتا ہے اور جو آزادی اس وقت ہمیں حکومت کی طرف سے میسر ہے قائم رہی تو میڈیا کی کار کردگی کسی بھی دوسرے ترقی پذیر ملک کی میڈیا کارکردگی سے کم نہیں ہوگی۔

میں اپنے ملک کی سیاسی پارٹیوں اور ان کے قابل احترام قائدین سے بھی اپیل کروں گا کہ وہ بھی اخبارات پر کسی قسم کا دباؤ نہ ڈالیں اور انہیں آزادی کی فضا میں کام کرنے دیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بعض سیاسی پارٹیاں اپنے ورکروں کی معرفت ڈرا دھمکا کر یا توڑ پھوڑ اور تشدد کا راستہ اختیار کر کے اخبارات سے اپنی مرضی کے مطابق خبریں چھپواتی ہیں اور ملک کی سب ہی اخباری انجمنیں اس پر صدائے احتجاج بلند کر چکی ہیں لیکن یہ سلسلہ کم و بیش ابھی تک جاری ہے۔ طویل عرصہ کی غیر سیاسی زندگی، گھٹن اور غیرجماعتی سیاست کے بعد کامل سیاسی آزادیوں کی بحالی بھی حکومت کا ایک اہم اور لائق تحسین کارنامہ ہے۔

آج ملک میں کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن اس حقیقت کا تذکرہ کئے بغیر بھی چارہ نہیں کہ جماعتی سیاست کی بحالی اور ایک منتخب حکومت کے قیام سے لاء اینڈ آرڈر کے حوالہ سے جو توقعات پیدا ہوئی تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔ مارشل لا کے طویل دور نے جو مسائل پیدا کئے تھے پلک جھپکنے میں تو وہ حل نہیں ہو سکتے تھے لیکن سوا سال کے عرصہ میں جس قدر اصلاح احوال کی توقع کی جاسکتی تھی وہ بھی پوری نہیں ہوئی۔ مجھے اس بات کا احساس ہے کہ جمہوری حکومت کی بحالی کے بعد حالات کو سدھارنے کی کوششیں بھی ہوئی ہیں لیکن بدقسمتی سے ابھی تک حکومت کی کوششیں پوری طرح بارآور نہیں ہو سکیں۔

صنعتی اور تجارتی لحاظ سے کراچی ملکی معیشت کی شہ رگ ہے یہاں اگر بدامنی اور غیر یقینی صور تحال جاری رہے تو پورے ملک کی معیشت متاثر ہوتی ہے سرمایہ کاری رک جاتی ہے بلکہ سرمایہ کی دوسرے مقامات پر منتقلی کارجحان پیدا ہو جاتا ہے جس سے بے روزگاری جیسے خوفناک مسئلہ کی سنگینی میں مزید اضافہ ہوتا ہے جو سیاسی بے چینی کو جنم دے سکتا ہے۔ امن وامان کی صور تحال جب ہی بہتر ہو سکتی ہےجب قانون کا مضبوط ہاتھ مجرموں کو اپنے شکنجے میں لینے کیلئے کسی قسم کا امتیاز اور رعایت ملحوظ نہ رکھے اور مجرم یا قانون شکن فرد یا گروہ کا تعلق خواہ کسی پارٹی یا طبقہ سے ہو ، اس کے ساتھ سیاسی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھ کر وہی سلوک کیا جائے جس کا وہ مستحق ہو۔

امن وامان کے قیام کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ انصاف اور قانون کے تقاضے پورے کرتے وقت کسی بھی سطح پر یہ نہیں سوچا جانا چاہئے کہ کس قانون شکن کا تعلق کس پارٹی یا گروہ سے ہے۔ حکومت کی نچلی سے بالائی سطح تک یہ رویہ پوری طرح اپنا لیا جائے تو امن و امان کی حالت بہتر بنانا آسان ہو جائے گا۔ قانون کے نفاذ کے ساتھ ہی ساتھ کشیدگی، تصادم اور محاذ آرائی کے خاتمہ کیلئے سیاسی سطح پر بھی اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ امن و امان کا قیام اس لئے بھی ضروری ہے کہ جمہوریت کاجو پودا ہم نے لگایا ہے وہ پروان چڑھ سکے۔

ہم موجودہ جمہوری تجربے کو کامیاب ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ مہذب جمہوری ملکوں کی طرح یہاں بھی منتخب حکومت کو اپنی مد ت پوری کرنے کی مہلت ملنی چاہئے، ملک میں جب بھی انتقال اقتدار ہو وہ پرامن اور شائستہ انداز میں ہو ۔ بدقسمتی سے ہمارا ماضی اس لحاظ سے زیادہ تابندہ نہیں۔ ہمارے ہاں انتقال اقتدار مارشل لا کے ذریعے ہی ہوتارہا ہے۔ کسی سویلین حکومت کے اپنی ٹرم پوری کرنے کی صرف ایک مثال ہے اور وہ آپ کے والد محترم کی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے 1977ء کے انتخابات کے بعد بھی پر امن انتقال اقتدار یا تسلسل اقتدار کی روایت پختہ نہ ہوسکی۔ انتخابات متنازع بن گئے اور ان کے خلاف ہونے والا احتجاج پھر ملک کی تاریخ کے طویل ترین مارشل لا پر ختم ہوا۔

ہم دعا اور توقع کرتے ہیں کہ ہمارا سیاسی حال اور مستقبل ماضی سے درخشاں ہوگااور حکومت پرامن، آزادانہ و منصفانہ انتخابات کرا سکے گی اور اقتدار اس پارٹی کو مل سکے گایا اس کے پاس رہ سکے گا جو انتخابات میں عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہے گی۔ ایک دفعہ یہ روایت ہمارے ہاں چل پڑی تو انشاء اللہ ہماری جمہوریت کی جڑیں بھی گہری اور مضبوط ہو جائیں گی اور جمہوری عمل میں اکھاڑ پچھاڑ کا خطرہ ہمیشہ کیلئےختم ہو جائے گا۔ پاکستان میں حکومت کے پاس ایک اور ہتھیار ہمیشہ رہا ہے جسے وہ آزادی صحافت کے خلاف اخبارات پر دباؤ ڈالنے کیلئے استعمال کرتی رہی ہیں۔

وہ ہتھیار ہے سرکاری اشتہارات پر کنٹرول اور ان کی تقسیم کا۔ اے پی این ایس اور پاکستان کی تمام نیوز پیپرز اور جرنلسٹس ایسوسی ایشنز اشتہارات پر سرکاری کنٹرول کو آزادی صحافت کے منافی خیال کرتی رہی ہیں۔ہمارا مطالبہ ہے کہ جس طرح اخبارات کو نیوز پرنٹ کی پابندیوں سے آزاد کیاگیا ہے اسی طرح اشتہارات کو بھی سرکاری کنٹرول سے آزاد کر دیجئے تاکہ کسی اخبار کو سرکاری اشتہارات اس لئے زیادہ یا کم نہ دیئے جائیں کہ اس اخبار سے حکومت خوش یا ناراض ہے۔

میں اور میرا ادارہ ہمیشہ انسانی حقوق کا بول بالا رہنے کی جدوجہد کرے گا

30 دسمبر1985کو ، جنگ گروپ کےبانی جناب میر خلیل الرحمٰن کو، انجمن حقوق انسانی پاکستان کی جانب سےان کی انسانی حقوق کے لیے اعلیٰ خدمات پر ایوارڈ دیا گیا۔تقریب سے خطاب کرتے ہوے میر صاحب نے کہا، قائداعظم کی قیادت میں شروع ہونے والی مسلم لیگ کی تحریک دراصل برصغیر کے دس کروڑ مسلمانوں کے انسانی حقوق کی تحریک تھی۔

میں نے اور میرے ساتھیوں نےپاکستان آ کر بھی کوشش کی کہ انسانی حقوق کے سلسلے میں جدوجہد کریں اور اس میں ہمیں کسی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی، اس کا احساس اس ایوارڈ سے ہوسکتا ہے ۔ میں اور ادارۂ جنگ میں کام کرنے والے انسانی حقوق کے لئے ہمیشہ جدوجہد کرتے رہیں گے۔

آج کا دن تاریخی حیثیت کا حامل یوں بھی ہے کہ، آج مارشل لا اُٹھائے جانے کا اعلان بھی ہوا ہے اور مارشل لا کا ختم ہونا دراصل انسانی حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والوں کی کامیابی ہے۔ دراصل بنیادی حقوق ہی انسانی حقوق ہیں لیکن بنیادی حقوق کے سلسلے میں ہمیں اپنے پر کچھ پابندیاں لگانی ہوں گی اور اس بات کی آزادی ہرگز نہیں دی جا سکتی کہ کوئی کسی کا راستہ روک لے یا رُکاوٹیں کھڑی کر دے یا ڈرانے دھمکانے کے لئے پتھر مارنا شروع کر دے، لہٰذا ہمیں اس قسم کے معاملات میں احتیاط برتنی ہوگی اور اس سلسلے میں ہمیں قواعد کا تعین کرنا ہوگا۔میں اورمیرا ادارہ اس بات کی ہمیشہ جدوجہد کرے گا کہ انسانی حقوق کا بول بالا رہے اور ہر انسان کو اس کا حق ملے۔

پاکستان میں اُردو صحافت نے ہر شعبے میں بہ تدریج ترقی کی ہے

اردو کے کثیرالاشاعت اخبار کے بانی جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر خلیل الرحمٰن نے اگست 1985 میں وائس آف امریکا (اردو سروس)کے نمائندے کو ایک انٹرویو دیا۔ مختلف سوالوں کےجوابات دیتے ہوئے میر صاحب نے قیام پاکستان کے اعلان کو اپنی صحافتی زندگی کی سب سے اہم اور یادگار خبر قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اخبارات کو خبروں کی اشاعت کے سلسلے میں آزادی حاصل ہے ۔اپنے صحافتی سفر کے بارے میں ایک سوال پر میر صاحب نے کہا کہ ،یہ سفر بہت اچھی طرح کٹ رہا ہے،کبھی یہ سفر آسان ہو جاتا ہے اور کبھی بہت مشکل۔

جہاں تک اس کی منزل کا تعلق ہے تو میری کوشش ہے کہ جنگ گروپ آف نیوز پیپرز کے تمام اخبارات اپنے ملک و عوام کی زیادہ سے زیادہ خدمت کریں تا کہ اس ادارے کا نام ہمیشہ قائم اور روشن رہے۔ جنگ کے صحافتی معیار پر روشنی ڈالتے ہوئے میر صاحب نے کہا کہ جنگ خبروں کے معاملے میں بہت آگے ہے۔ خبروں کے حصول کا کوئی ذریعہ ایسا نہیں ہے جو ہمیں میسر نہ ہو۔ اللہ کے فضل سے جنگ اپنی خبروں، ادراتی کالموں، مضامین اور اچھے لکھنے والوں کے لحاظ سے ایک معیاری اخبار ہے۔

ہماری کوشش ہوتی ہے کہ دُنیا کے کسی حصہ میں کوئی واقعہ ہو تو ہم اس کی خبر اور تصویر سب سے پہلے حاصل کر لیں۔ یہ ٹی وی کا دور ہے، وہاں چند گھنٹوں میں تصویر دکھا دیتے ہیں ،ہمیں ان کے ساتھ چلنا پڑتا ہے،آئندہ انشاء اللہ ہم مزید ترقی کریں گے۔ آزادی صحافت کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میر صاحب نے کہا کہ خبروں کے سلسلے میں ہم پر کوئی پابندی نہیں ہے، کوئی ہم سے یہ نہیں کہتا کہ یہ خبر دو یا نہ دو، ہاں کبھی کبھار یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ اس خبر کو اس طرح سے دیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ اس مشورے کو ماننا ہماری مرضی پر منحصر ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ملک و قوم کے مفاد میں ہے تو ہم اسے مانتے ہیں اور اگر سمجھتے ہیں کہ وہ ملک و قوم کے مفاد میں نہیں تو نہیں مانتے۔

اپنے طور پر خبر دیتے ہیں،مگر اس طرزعمل کا کوئی خاص ردعمل نہیں ہوتا۔ ایک سوال پر میر صاحب نے کہا کہ میں نے دہلی سے اخبار شروع کیا تحریک پاکستان میرے سامنے چلی، میں اس میں شریک تھا ۔ قیام پاکستان کی خبر ہم نے دہلی میں شائع کی تھی پاکستان بننے کے بعد جنگ کو کراچی منتقل کر دیا گیا ۔امریکی صحافت کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے میر صاحب نے کہا کہ وہ بہت ترقی کر چکی ہے۔

ان کے ذرائع ہم سے بہت زیادہ ہیں خصوصاً انہیں الیکٹرونکس اور دیگر ذرائع کی جو سہولتیں میسر ہیں وہ ہمارے پاس نہیں وہ الیکٹرونکس کے ذریعہ نہ صرف تصاویر بلکہ اخبار کے پورے پورے صفحے ایک جگہ سے دُوسری جگہ منتقل کر دیتے ہیں پھر امریکی اخبارات کی ضخامت بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن انہیں اشتہارات کی صورت میں جو بزنس ملتا ہے اس کی بنا پر یہ ضخامت صحیح ہے، کوئی بھی فرد ان اخبارات کو پورا نہیں پڑھتا بلکہ اپنی پسند کے سیکشن نکال کر باقی اخبار لوگ ٹرینوں میں چھوڑ جاتے ہیں ۔ مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ،پاکستان میں اُردو صحافت نے ہر شعبہ میں بتدریج ترقی کی ہے۔