مسجدِ نبویﷺ دورِ رسالت میں

February 16, 2024

مولانا نعمان نعیم

(گزشتہ سے پیوستہ)

دار الافتاء:۔مدینۂ منورہ میں حضور اکرمﷺ نے ریاست کی طرف سے مفتی و قاضی بھی مقرر فرما رکھے تھے، ان مفتیان کرام اور قضاۃ میں حضرات خلفائے راشدین (حضرت سیدنا ابو بکر صدیق، حضرت سید نا عمر فاروق، حضرت سیدنا عثمان غنی اور حضرت سید نا علی مرتضی رضی اللہ عنہم اجمعین) کے علاوہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ، حضرت عبد الله ابن مسعود، حضرت ابی بن کعب ، حضرت معاذ بن جبل ، حضرت عمار بن یاسر، حضرت ابو درداء ، حضرت حذیفہ بن یمان ، حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت سلمان فارسی رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اسمائے گرامی نمایاں ہیں۔

عہدِ نبویؐ میں مسجد بہ حیثیت فلاحی وسماجی مرکز :۔حضور نبی کریم ﷺ مسجد نبوی ہی سے ویلفیئر سسٹم یعنی فلاحی کاموں کا آغاز کیا اور جب بھی کوئی محتاج ، مسکین، یتیم اور بیوہ وغیرہ دربار رسالت میں مدد کی پکار لے کر آتے۔ آپ ﷺ نےانہیں خالی ہاتھ واپس کبھی نہیں لوٹایا، بلکہ ہمیشہ کسی نہ کسی طرح ان کی مدد فرمائی ۔ یہ مدد مسجد نبوی ہی سے فراہم کی جاتی رہی۔

ایک دفعہ ایک فاقہ زدہ شخص حضور نبی کریمﷺ کی خدمت میں پہنچا اور کہنے لگا کہ میں سخت بھوکا ہوں، آپﷺ نے پہلے اپنے گھر میں دریافت کیا: کچھ ہے؟ وہاں سے جواب ملا : صرف پانی ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺنے مجلس میں موجود صحابہ کرامؓ کو مخاطب کرکے فرمایا: کوئی ہے جو انہیں آج مہمان بنائے ؟ اس پر حضرت طلحہ ؓ نے عرض کیا: حضورﷺ میں حاضر ہوں۔ (صحیح بخاری) ایسے بے شمار واقعات کتبِ سیر و تاریخ میں موجود ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد نبویؐ کی حیثیت ایک ویلفیئر سینٹر کی بھی تھی، جہاں سے مستحقین اور محتاجوں کی دادرسی کی جاتی تھی۔

شعبۂ صیغہ احتساب عدالت:۔حضور اکرم ﷺنے جو نگراں اور عاملین مقرر فرمائے تھے ، ان کی خبر گیری کرنے کے لیے اسلام میں احتساب عدالت کا شعبہ قائم ہوا ، اس کا صدر دفتر بھی مسجد نبوی ہی کو قرار دیا گیا ، کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ اکثر کام مسجد نبوی سے ہی فرماتے ،اگر کسی نگران اور عامل کے کام میں کوتاہی دیکھتے تو مسجد میں ہی اکثر ان کی سرزنش فرماتے، جیسا کہ نبی کریم ﷺنے قبیلہ اَزد کے ایک آدمی کو بنو سلیم کے صدقات پر عامل بنا یا تو بنو سلیم نے ان کے سامنے مال پیش کیا اور کہا: یہ آپ کا سرکاری مال ہے اور یہ آپ کے لیے ہدیہ ہے، انھوں نے یہی بات دربار ِنبوی میں عرض کی تو اس ہدیہ (اضافی ) پر حضورﷺ نے مسجد میں دوران خطبہ ناراضی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ جو لوگ ایسا کہتے ہیں ، وہ ذرا اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھ کر دیکھیں کہ کون انہیں ہدیہ دیتا ہے۔

انٹیلی جنس:۔کسی بھی ریاست کے نظام کو مستحکم اور مضبوط خطوط پر استوار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ریاست کے اندرونی و بیرونی دشمنوں پر کڑی نظر رکھی جائے، تاکہ وہ کسی بھی زیر زمین سازش کے ذریعے ریاست کو انار کی، بدامنی، عدم استحکام اور کسی قسم کے بحران سے دو چار کر کے اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈال سکیں۔ جو ریاستیں اپنے دشمنوں کی طرف سے بے پروا ہو جاتی ہیں، ان کی بنیادیں متزلزل ہونے میں زیادہ عرصہ نہیں لگتا۔

بعض تو وہ دشمن ہوتے ہیں جن کا دشمن ہونا اظہر من الشمس ہوتا ہے ،لیکن ان سے زیادہ خطرناک وہ دوست نما دشمن ہوتے ہیں جو بظاہر دوستی ، ہمدردی اور خیر خواہی کی باتیں کرتے اور پس پشت جڑیں کاٹنے میں لگے ہوتے ہیں۔ ایسے دشمنوں سے باخبر رہنے، ان کا سراغ لگانے، ان پر نظر رکھنے، ان کی سازشوں سے ریاست کو بر وقت با خبر کرنے اور ان کے حربوں کا بروقت توڑ کر کے انہیں اپنے مذموم عزائم میں ناکام بنانےکی ذمے داری ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ہوتی ہے۔

ریاست مدینہ میں بھی انٹیلی جنس کا نظام تھا اور مدینہ منورہ میں پہرے داری اور داخلی معاملات کی خفیہ خبر گیری و سراغ رسانی کی جاتی تھی، اس کے ساتھ ساتھ دشمن کی چالوں اور ان کی جنگی تیاریوں پر نظر رکھنے کے لیے حضور ﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مقرر فرما کر بھیجتے تھے جن کی خبر گیری یا خبر رسانی کے بعد ہی مسجد میں اُس کام پر حکمت عملی اپنائی جاتی تھی، اس طرح شعبے کے تحت پہرے دار بھی مقرر تھے ۔ اس شعبے کی خود براہ راست نبی اکرمﷺ نگرانی فرمایا کرتے تھے، آپ ﷺکے بعد خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی بذات خود اس خفیہ خبر رسانی اور سراغ رسانی کے شعبے کولیڈ کرتے رہے۔

شعبۂ اصلاح و وعظ و نصیحت :۔مسجد نبویؐ چونکہ دیگر امور انجام دینے کے ساتھ ساتھ ایک جامع مسجد بھی تھی ، جس میں حضور نبی کریم ﷺصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو علوم ظاہری کے ساتھ علوم باطنی سے بھی روشناس کر کے ان کا تزکیۂ نفس اور اصلاحِ قلب کرتے اور انہیں وعظ ونصیحت فرماتے ۔ اس اعتبار سے یہ کہنا درست ہو گا کہ مسجد نبوی ؐہی کودورِ نبویؐ میں خانقاہ کا درجہ حاصل تھا۔

مسجد نبویؐ اور چیریٹی سسٹم:۔مسجد نبویؐ ہی میں جہاد کے لیے چندہ اکٹھا کیا جاتا تھا ، اس مقصد کے لیے حضور اکرمﷺ نے مسجد نبوی میں ہفتے میں ایک دن مخصوص کر رکھا تھا۔

مسجد بطور کمیونٹی سینٹر:۔ اسلام نے مسجد کو جو مقام بخشا ہے، اس کی مثال دیگر مذاہب میں نہیں ملتی ،کیونکہ دیگر مذاہب میں عبادت گاہیں، چاہے مندر ہو یا چرچ یا گردوارہ ہو ، سب کو فقط عبادت کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور عبادت گاہوں کو معاشرتی مسائل سے الگ تھلگ دکھایا گیا ہے، لیکن اسلام نے اس طرز کو بدلا اور مساجد کو اللہ رب العزت کی عبادت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا سیاسی ، معاشرتی ، فوجی ، تربیتی وتعلیمی اور اسی طرح کے دیگر امور خیر کا بھی مرکز بنایا اور یہی وہ خاصیت ہے جس کی وجہ سے اسلام میں مسجد کا کردار دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں ے الگ اور ممتاز رہا ہے۔

ریاست مدینہ کے سیاسی معاملات سے سماجی معاملات تک مسجد سے ہی حل ہوا کرتے تھے، اس اعتبار سے مسجد معاشرے سے الگ کوئی چیز نہیں، بلکہ معاشرے کا اہم حصہ ہوتی تھی ، اس اعتبار سے ہمارا یہ کہنا بالکل درست ہو گا کہ حضور اکرم ﷺ نے مسجد نبوی کو عبادت کے ساتھ ساتھ ایک کمیونٹی سینٹر کے طور پر بھی استعمال کیا۔

کمیونٹی سینٹر ایک معاشرے کے لوگوں کو جوڑنے کا ایک خاص مقام ہے، جہاں مختلف قوموں ، ذاتوں ،زبانوں اور مزاجوں کے لوگ ایک دوسرے سے تعلق بناتے ہیں اور اپنے تجربات اور خصوصیات کا اشتراک کرتے ہیں، جس کی وجہ سے مختلف معاشرتی معاملات پر بات کرنے سے ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملنے کے ساتھ ساتھ احترام کا ماحول پیدا ہوتا ہے، جو کہ انسانیت کی بھلائی اور ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

اسلام نے مسجد کو فقط عبادت گاہ کی نظر سے نہیں دیکھا، بلکہ یہ شرف اسلام کو ہی حاصل ہے کہ اسلام نے مسجد کو ایک عبادت گاہ کے ساتھ ساتھ ایک کمیونٹی سینٹر کے طور پر پیش کیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری وساری ہے، جس کی مثال ہم آج بھی مختلف ممالک کے اندر مساجد میں قائم اسلامی کمیونٹی سینٹر کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔

اسلامی کمیونٹی سینٹر ایک خصوصی ادارہ ہوتا ہے، جو اسلامی اصول وضوابط کی روشنی میں مسلمانوں کے مختلف مسالک، گروہوں، فرقوں اور قوموں کو جمع کر کے ان کے اندر حسن ذوق ، تواضع ، انکساری، ایثار وقربانی ، نرم خوئی، پرہیز گاری ، عدل و انصاف، ہمدردی، عالی ظرفی ، خیر خواہی ، معاشرتی اقدار کے معیارات ، نظافت و پاکیزگی ، لطافت احساس، خلوص ، آپس کی بھائی چارگی اور اخوت و یگانگت ، غرض گوناگوں اوصاف حمیدہ کا پرچار کرتا، مسلمانوں کو اس کی تعلیم دیتا اور اس پر عمل کرنے کی تلقین کرتا ہے۔

اسلامی کمیونٹی سینٹر مختلف مسلکوں ، قوموں، رنگوں ، زبانوں، فرقوں اور فقہی رجحانات کے باوجود ہم آہنگ معاشرے کا مرکز ہوتا ہے، جہاں اختلافات کے باوجود لوگوں کو اچھے اور محبت بھرے ماحول میں جمع ہونے، ایک دوسرے کے دکھ درد اور خوشی کے لمحات میں شریک ہونے، ایک دوسرے کے خیالات ورجحانات جاننے، اپنی بات دوسروں تک پہنچانے اور ایک دوسرے کو سمجھنے، برداشت کرنے اور ساتھ چلنے کا موقع دیا جاتا ہے۔

مسجد نبویؐ دنیا کی سب سے بڑی مساجد میں سے ایک ہے اور اسلام کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے ۔ دور نبویؐ ہی سے مسجد نبوی ؐنے مسلمانوں کی دینی، سماجی و معاشرتی زندگی میں اہم اور ہمہ جہت کردار ادا کیا۔ رسول اکرم ﷺ نے مسجد نبوی کے فرش اورسنگ ریزوں پر بیٹھ کر معاشرے کے تمام مسائل کو قرآن کریم اور اپنے ارشادات مبارکہ کی روشنی میں حل کیا ۔ آپ ﷺ تمام اصلاحی اور تعمیراتی سرگرمیاں یہیں سے انجام دیتے ، یہیں نکاح اور دیگر تقریبات طے پاتی تھیں۔

مہاجرین صحابہ کرامؓ کی اس نئے شہر میں آباد کاری کے مسئلے کو اس کمیونٹی سینٹر کے ذریعے حضور اکرم ﷺ نے مسجد نبوی کے صحن میں بیٹھ کر مواخات کی شکل میں حل کیا۔ یہیں سے مسلمان معاشرتی ، سیاسی علمی، رفاہی ، دفاعی اور زندگی کے دیگر امور سےمتعلق مسائل کے حل کے لیے استفادہ کرتے تھے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم نے بد قسمتی سے موجودہ دور میں مساجد کو صرف نماز پڑھنے کی جگہیں سمجھ لیا ہے ، جو نماز کے وقت کھولی اور نماز ہو جانے کے بعد بند کر دی جاتی ہیں۔

اس کے علاوہ ہم مساجد سے کوئی اور کام نہیں لیتے ، حالانکہ اس تحریر میں ہم نے مسجد نبوی سے دور نبویؐ میں لی جانے والی خدمات کی روشنی میں یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مساجد کے کردار کو محدود نہیں کرنا چاہیے،مساجد کے کردار کی اسی محدودیت کی وجہ سے لوگوں کا مساجد کی طرف رجوع بھی دن بدن کم ہوتا جا رہا ہے۔ جب مساجد لوگوں کی مختلف النوع خدمات انجام دیں گی تو ان کی طرف لوگوں کا رجوع بھی بڑھے گا اور یوں ہمارا یہ اقدام مساجد کی آبادی میں اضافے کا سبب بھی بنے گا۔ اس لیے حکومتوں اور تمام اہل وطن کو چاہیے کہ اپنی مساجد سے اسی طرز پر استفادہ کرنے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں، تاکہ مسجدوں کا وہ مقام و مرتبہ بحال ہو سکے جو حضور اکرم ﷺ اور اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں رہا ہے۔

اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمے داری حکومت کی، پھر اہل علاقہ واہل محلہ کی ، پھر مساجد کی کمیٹیوں کی بنتی ہے کہ وہ ائمہ و خطبائے مساجد کو اس پر نہ صرف آمادہ کرنے کے لیے ان کی خدمت میں بار بار حاضر ہوں ، بلکہ ان کی مالی ضروریات اور مشکلات کے حل کے لیے بھی عملی اقدام کریں، تاکہ ائمہ و خطبائے مساجد دیگر امور اور بالخصوص غم روزگار سے بے فکر ہو کر مکمل آزادی و اطمینان کے ساتھ مسجد کو ہمہ وقت مختلف اصلاحی سرگرمیوں اور مذکورہ بالا امور کے ساتھ آباد رکھ سکیں۔