سیاحت کی حوصلہ شکن سوچ

March 02, 2024

روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
پاکستان سے باہر آباد لوگ پاکستان میں رونما ہونے والے حالات و واقعات کو کس طرح دیکھتے ہیں،اس پر بات کرتے ہیں، میں ان ہی لوگوں کی بات کررہا ہوں جو کسی نہ کسی شکل میں خود کو پاکستانی بھی سمجھتے ہیں۔ پاکستان کی بہتری اور ترقی کیلئے درد اور سوچ بھی رکھتے ہیں۔ ایک زمانے میں جب پاکستان میں دہشت گردی اپنے زوروں پر تھی تو بیرون ممالک خاص طور پر امریکہ اور یورپ میں رہنے والے پاکستان نژاد خود کو بہت تشویش میں محسوس کرتے تھے اور پاکستان کی کمزوری پر شرمندگی کا احساس بھی رکھتے تھے، اپنی کمزوریوں پر فخر کون کرسکتا ہے، وہ گھر میں ہو یا ملک میں، کون چاہتا ہے کہ اسے ذہنی بیمار سمجھا جائے،اسی طرح دنیا بھی پاکستان کو نفسیاتی بیمار یا دیوانہ نہیں دیکھنا چاہتی لیکن اگر ہم خود ہی ایسا ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہوں تو دنیا صرف کنارہ کش ہوسکتی ہے، آج پاکستان کا ہر نوجوان ملک سے کیوں بھاگنا چاہتا ہے، اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ اس لیے کہ وہ ملک میں اپنا مستقبل، جان و مال اور عزت کو محفوظ نہیں سمجھتا جس کی وجہ سے بیمار نظام ہے جو تعلیم، صحت، مستقبل، روزگار وغیرہ میں نہ تو کسی چیز کی ضمانت دینے کا اہل ہے، نہ ہی اس قابل ہے کہ25کروڑ کا بوجھ اٹھا سکے، نظام تو اس کے اندر رہنے والوں نے ہی بنانا ہے، انہوں نے ہی چلانا ہے، یہی لوگ اسے طاقتور بھی بناسکتے ہیں اور یہی رہنے والے اپنے ہی نظام کو گھن کی طرح چاٹ بھی سکتے ہیں اور ہم نے موخرالزکر کا انتخاب کیا ہے یعنی سب اس نظام کو چٹ کرجانا چاہتے ہیں، ہر اسکیم کے پیچھے یہی اسکیم پنہاں ہوتی ہے کہ ملک کو کون کون سے طریقوں سے چاٹا جائے کہ پیسہ بھی ہضم ہوتا رہے اور غریب بھی ہمارے سامنے نہ زبان ہلائے، نہ ہی اس دیئے گئے افلاس میں سے باہر آسکے اور اس لوٹنے والے کا شکر گزار بھی رہے اور اس کی مہربانیوں کے گن گاتا رہے، ایسا کرنے والوں کی جانب سے روا رکھنے کے لیے سب سے بڑا ہتھیار مذہب ہے، جس کے ذریعے عوام کے دماغ میں ڈالا جاتا ہے کہ یہ سب غیر مساوی تقسیم دراصل خدا کی طرف سے ہے جسے جو ملتا ہے وہ تقدیر کا لکھا ہوتا ہے۔ تقدیر خدا کی لکھی ہوئی ہوتی ہے، ہمیں اگر تمہارے اوپر حکمران بنایا گیا ہے تو یہ اللہ کی طرف سے ہے، یہ بات عام سننے کو ملتی ہے کہ رزق خدا نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے، یہی وہ بیانیے ہیں جن کےذریعے یہ دولت اور اقتدار پر قابض طبقہ اپنی لوٹ مار اور کنٹرول کا سلسلہ جاری و ساری رکھے ہوئے ہے، مذہب کا اصل استعمال تو عورت کو کنٹرول میں رکھنے کیلئےاستعمال ہوتا ہے جس پر ترقی یافتہ دنیا میں تو عورت کو کنٹرول میں رکھنےکیلئے استعمال ہوتا ہے، جس پر ترقی یافتہ دنیا میں رہنے والے حیرانگی کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ عورت کی آزادی اور مقام کو یہ طبقہ کس طرح اپنے مفادا ت کیلئے استعمال کرتا ہے اور عورت کی حیثیت کو کس طرح نچلے درجے کا سمجھا جاتا ہے،ابھی حال ہی میں اچھرہ لاہور میں ہونے والے واقعے کو دیکھ لیں، کس طرح عورت کے لباس پر لکھے گئے الفاظ کو مقدس قرار دے کر اسے گھیرے میں لے لیا، یہ ہجوم ابھی اس عوت کے تکہ بوٹی کرنے کی جانب بڑھ ہی رہا تھا کہ پولیس کی بروقت مداخلت اور مثبت کردار نے ایسا ہونے سے بچا لیا لیکن یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ عوام کے اذہان اس حد تک واش کیے جاچکے ہیں کہ کھڑے کھڑے چند منٹوں میں قتل و غارت پر تیار ہم خیال لوگ اکٹھے ہوجاتے ہیں، اس کا مطلب ہے ایسا مائنڈ سیٹ بہت عام اور پھیلا ہوا ہے جس پر ہم جیسے بیرون ممالک رہنے والے ایک پریشانی محسوس کرتے ہیں، انہیں پاکستان اپنے لیے محفوظ جگہ محسوس نہیں ہوتی، خصوصاً اس واقعے میں جب ان دردہ صفت لوگوں نے اس بالکل بے گناہ خاتون سے معافی منگوائی اور ریاستی ادارہ بھی ان جانور نما مذہب کے نام لیواؤں کے کہنے پر چلتا رہا اور ان کے حوصلے بڑھاتا رہا اور خاتون کو گناہ گار بناتا رہا، یہی وہ پاکستان میں ملکی سطح پر مجموعی سوچ ہے جو باہر آباد پاکستانیوں کو پریشان بھی رکھتی ہے اور سیاحوں اور سیاحت کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔