وقتِ زوال کا دورانیہ کتنا ہوتا ہے؟

May 17, 2024

تفہیم المسائل

سوال: زوال اور دیگر دو ممنوع اوقات، جن کے دوران نماز منع ہے ،کا دورانیہ کتنا ہے ،شمس کی نقل وحرکت کے باعث آغازِ وقت تو بدلتا رہتا ہے ، لیکن دورانیہ یکساں رہتا ہوگا ؟،( طارق محمود ،راولپنڈی

جواب: مکروہ اوقات تین ہیں: (۱) طلوعِ آفتاب(۲) نصف النہار(استوائے شمس) (۳) غروبِ آفتاب۔ عوام میں یہ مشہور ہے کہ زوال کا وقت مکروہ ہوتا ہے ،یہ غلط ہے، استواء کا وقت مکروہ ہوتا ہے ، زوال سے تو ظہر کا وقت شروع ہوتا ہے، علامہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ تین ساعتیں(وہ ہیں) ،جن میں فرض نماز، نمازِ جنازہ اور سجدۂ تلاوت جائز نہیں ہیں :سورج طلوع ہونے سے بلند ہونے تک ، نصف النہار(استوائے شمس ) سے زوال تک اور (غروب کے وقت) سورج کے سرخ ہونے سے ڈوبنے تک ،البتہ اُس دن کی نمازِعصر (اگرصحیح وقت میں ادانہ کی ہو تو) غروب کے وقت بھی ادا کرنا جائز ہے ،(فتاویٰ عالمگیری ،جلد1،ص:52)‘‘۔یعنی بالکل قضا کرنے کے مقابلے میں کراہت کے ساتھ ادا کرنا بہتر ہے ۔

صدرالشریعہ علامہ امجدعلی اعظمی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ’’آفتاب ڈھلنے کی پہچان یہ ہے کہ برابر زمین میں ہموار لکڑی اس طرح سیدھی نصب کریں کہ مشرق یا مغرب کو اصلاً جھکی نہ ہو، آفتاب جتنا بلند ہوتا جائے گا، اس لکڑی کا سایہ کم ہوتا جائے گا، جب کم ہونا موقوف ہو جائے، تو اس وقت خطِّ نصف النہار پر پہنچا اور اُس وقت کا سایہ، ’’سایہ ٔ ا صلی ‘‘ہے، اس کے بعد بڑھنا شروع ہوگا اور یہ دلیل ہے کہ خطِّ نصف النہار سے متجاوز ہوا۔

اب ظہر کا وقت ہوا ،یہ ایک تخمینہ ہے، اس لیے کہ سایہ کا کم و بیش ہونا خصوصاً موسم گرما میں جلد متمیز نہیں ہوتا، اس سے بہتر طریقہ خطِّ نصف النہار کا ہے کہ ہموار زمین میں نہایت صحیح کمپاس سے سوئی کی سیدھ پر خط نصف النہار کھینچ دیں اور ان ملکوں میں اس خط کے جنوبی کنارے پر کوئی مخروطی شکل کی نہایت باریک نوک دار لکڑی خوب سیدھی نصب کریں کہ شرق یا غرب کو اصلاً نہ جھکی ہو اور وہ خطِّ نصف النہار اس کے قاعدے کے عین وسط میں ہو، جب اس کی نوک کا سایہ اس خط پر منطبق ہو، ٹھیک دوپہر ہوگئی، جب بال برابر پورب کو جھکے دوپہر ڈھل گئی، ظہر کا وقت آگیا، (بہارِ شریعت ، جلد اول،ص:449)‘‘۔

یعنی اس جس جگہ پہنچ کر سایہ کم ہونا بند ہوجائے، یہی نصف النہار (استوائے شمس)ہے، پھر جب دوسری طرف سایہ بڑھنے لگے تو دوسری جانب اُسی سایہ کے بڑھنے کا نام زوالِ شمس ہے، جب زوال ہوجاتا ہے تو نماز پڑھنا جائز ہوجاتا ہے۔ سورج کو اُس خط سے گزرنے میں صرف دو منٹ اور آٹھ سیکنڈ لگتے ہیں، بس صرف یہی وقت حقیقت میں ’’مکروہ وقت ‘‘ ہے ، شرعی اصطلاح میں اسے ’’استوائے شمس ‘‘ کہاجاتا ہے ، اس کے فوری بعد زوالِ شمس شروع ہوجاتا ہے ، جو ظہر کا ابتدائی وقت ہے۔ علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ یہ تعبیر ،زوال کے وقت کی تعبیر سے اَولیٰ ہے ،کیونکہ زوال کے وقت میں نماز بالاجماع مکروہ نہیں ہے ، ’’بحر عنِ الحلیہ‘‘ ،یعنی زوال کے ساتھ ظہر کا وقت داخل ہوجاتا ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔

’’شرح نقایہ‘‘ میں برجندی سے منقول ہے:فقہائے کرام کی عبارات میں ہے کہ مکروہ وقت نصف النہار سے لے کر سورج کے زوال تک ہے اور یہ امرمخفی نہیں ہے کہ سورج کا زوال نصف النہار کے متصل بعد ہوتا ہے (اوراگر مراد عرفی دن کا نصف ہوتو)وقت کی اتنی قلیل مقدار میں کوئی نماز اداکرنا ممکن نہیں ،شاید اس سے مراد یہ ہوکہ اگر اُس وقت میں نماز کا کوئی جزء آجائے، تو پھر یہ نماز جائز نہیں ہے یا پھر دن سے مراد نصفُ النہار شرعی ہے جوکہ صبح صادق سے سورج غروب ہونے تک (کے کل وقت کا نصف)ہے ،تو اِس صورت میں نصفُ النّہار زَوَال سے اتنا وقت پہلے آئے گا ،جوقابلِ اعتبار ہو، اسماعیل ، نوح، حَموی۔ اورقُنیہ میں ہے: زوال کے قریب مکروہ وقت کی مقدار میں اختلاف ہے، بعض علماء نے فرمایا: نصف النہار سے زوال تک ہے، کیونکہ ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے نصفُ النَّہار سے زَوَال تک نماز پڑھنے سے منع فرمایاہے ،رکن الدین الصباغی نے کہا: یہ کتنا اچھا استدلال ہے کیونکہ ایسے وقت میں نمازسے منع کیاگیاہے ،جس کی مقدار میں نماز کی ادائیگی کا تصور کیاجاسکتاہے ۔ قہستانی میں اس قول کو مَاوَرَاء ُالنہرکے اَئمہ کی طرف منسوب کیاہے کہ اس سے مراد نصف النہارعرفی ہے۔

اورنصفُ النَّہارشرعی مراد لینے کے قول کو اَئِمَّہ خوارزم سے منسوب کیاہے اور اُس سے مراد ہے ضحوہ کُبریٰ سے زَوَال تک کا وقت،(ردالمحتار علیٰ الدرالمختار،جلد2،ص:29)‘‘۔فتویٰ اَئِمۂ خوارزم کے قول پر ہی ہے کہ زوال کا وقت نصف النہار شرعی یعنی ضحوہ کبری سے زوال تک ہے ۔نصفُ النَّہار شرعی سے مراد یہ ہے کہ طلوعِ صُبحِ صادق سے غروبِ آفتاب تک وقت کی جو کل مقدار بنتی ہے ،اُس کا نصف نکال کر اُسے صُبح صادق کے وقت میں جمع کیاجائے ، جو جواب آئے گا، وہ نصفُ النَّہار شرعی یا ضحوہ کُبریٰ کہلائے گا اور نصفُ النَّہار شرعی سے زوال تک کے وقت میں نماز کا اداکرنا مکروہ تحریمی ہے۔

اس وقت کی مقدار موسمِ سرما اور موسمِ گرما میں بدلتی رہتی ہے ۔ پاکستان میں سال کے مختلف ایام میں اندازاً یہ وقت تقریباً 35تا45منٹ بنتا ہے،طلوع وغروبِ آفتاب کا مکروہ وقت تقریباً بیس بیس منٹ ہے ۔نمازوں کے اوقات ، طلوع وغروب آفتاب اور ضحوۂ کبریٰ کے سال بھر کے اوقات کا ایک دائمی نقشہ بازار میں دستیاب ہے، جسے اہلسنّت کے مستند علماء نے مرتب فرمایا، اس سے مدد حاصل کریں، آپ فیضانِ مدینہ سے بھی حاصل کرسکتے ہیں،۔(واللہ اعلم بالصواب)