بانی پی ٹی آئی کے 12 مقدمات میں جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ کالعدم قرار

July 25, 2024

فائل فوٹو

لاہور ہائی کورٹ نےبانی پی ٹی آئی کے 12 مقدمات میں جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

لاہور ہائی کورٹ میں بانی پی ٹی آئی کے 12 مقدمات میں جسمانی ریمانڈ کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی۔

عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کی ویڈیو لنک پر حاضری کا نوٹیفکیشن بھی کالعدم قرار دے دیا۔

سماعت کے دوران جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ انتشار کو ثابت کرنا سب سے مشکل کام ہوتا ہے۔

پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے بانی پی ٹی آئی کے ٹوئٹس پڑھتے ہوئے کہا کہ ان کے ذریعے ایک مخصوص بیانیہ بنایا گیا۔

جس پر جسٹس انوارالحق پنوں نے کہا کہ اس سے زیادہ دھمکیاں تو آج کل ججوں کو مل رہی ہیں۔

پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ درخواست گزار کے خلاف سیکشن 121 کے تحت بغاوت کی کارروائی ہوگی۔

جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ یہ سیکشن لاہور ہائی کورٹ پہلے ہی کالعدم قرار دے چکی ہے۔

جسٹس انوار الحق نے کہا کہ 9 مئی کے بعد کب آپ کو خیال آیا بانی پی ٹی آئی کے وائس میچنگ ٹیسٹ اور دیگر ٹیسٹ ہونے چاہئیں۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ آپ کو جسمانی ریمانڈ کیوں چاہیے، آپ نے پولی گرافک ٹیسٹ کرانا ہے تو ملزم تو ویسے ہی جوڈیشل کسٹڈی میں ہے، آپ خود کہہ رہے ہیں کہ مجسٹریٹ کے پاس تمام اختیارات ہیں کہ یہ ٹیسٹ کرائے، آپ اس سوال کا جواب نہیں دے پا رہے کہ گرفتاری اب کیوں ڈالی گئی، آپ نے جس موقع پر گرفتاری ڈالی وہ ٹائمنگ بہت اہم ہے۔

جسٹس انوار الحق نے کہا کہ آپ کو پتہ ہے کہ ایک بندہ جیل میں ہے تو گرفتاری کیوں نہیں ڈالی گئی۔

پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کا فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ کرانا ہے۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ اس کے لیے آپ کو 10 روز کے جسمانی ریمانڈ کی کیا ضرورت ہے، فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ کا سیمپل ایک بار لیا جائے گا، اگر ملزم فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ نہیں کرواتا تو وہ خود اس کے نتائج کا ذمے دار ہوگا، آپ ملزم کو فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ کے لیے فورس تو نہیں کر سکتے۔

جسٹس انوار الحق نے کہا کہ آپ کو کب خیال آیا ہے کہ اب ماڈرن ڈیوائسز کی طرف جانا چاہیے۔

پراسکیوٹر جنرل نے کہا کہ فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ کی سہولت جیل کےاندر ہی ہے باہر لے کر نہیں جانا ہوتا۔

جسٹس انوار الحق پنوں نے کہا کہ پہلا فرض تفتیشی کا ہے کہ وہ دیکھے کہ جرم بنتا ہے یا نہیں، پھر جج کا فرض، وہ اسکرین پر لگا کر دیکھے کہ کیا واقعی جرم بنتا ہے یا نہیں۔

جس پر جسٹس انوار الحق نے کہا کہ اگر درخواست گزار نے احتجاج کی کال دی تو یہ جرم کیسے بنے گا؟ اگر درخواست گزار حملوں کو لیڈ کرتا تو پھر ضرور یہ جرم ہوتا، درخواست گزار کے خلاف کیا مٹیریل ہے پراسیکیوٹر جنرل خود پڑھیں گے۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ اے ٹی سی کے جج کو دیکھنا چاہیے تھا کہ ریمانڈ بنتا بھی ہے کہ نہیں، درخواست گزار کے خلاف سیکشن کیا لگتا ہے؟

پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ سیکیورٹی برانچ افسر نے بیان دیا ہے، بانی پی ٹی آئی نے ہدایت کی تھی، درخواست گزار نے ہدایت کی تھی کہ اگر گرفتاری ہو تو ملک بند کریں جی ایچ کیو پر حملہ کریں، آخر میں سارا الزام پراسیکیوشن پر پڑتا ہے کہ پراسیکیوشن ناکام رہی، اس موقع پر پراسیکیوشن کو پورا موقع نہ دینا زیادتی ہوگی، جن موبائل سے ٹوئٹ، واٹس ایپ کیے گئے اس کی برآمدگی تفتیش کے بغیر ممکن نہیں۔

جسٹس انوار الحق پنوں نے کہا کہ اسی بات پر آجائیں آپ یہ موبائل کیسے ریکور کریں گے ملزم تو جیل میں ہے، تفتیشی ملزم کو کہیں لے کر نہیں جاسکتا تو کیسے یہ موبائل برآمد کرائے گا۔

پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

واضح رہے کہ انسداد دہشت گردی لاہور کی عدالت نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا 9 مئی کے 12 مقدمات میں 10 دن کا جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔