چوہدری ظہورالٰہی کی سیاست خصوصی تحریر…اقبال چوہدری

September 25, 2016

چوہدری ظہورالٰہی کی شہادت کو تقریباً چوتھائی صدی گزر چکی ہے لیکن ان کا مشن آج بھی اسی آب و تاب کے ساتھ ان کے فرزند پاکستان مسلم لیگ کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویزالٰہی کی سرکردگی میں جاری و ساری ہے۔ چوہدری ظہورالٰہی نے قیام پاکستان سے قبل سرکاری ملازمت کو خیرباد کہہ کر صنعت و حرفت کے میدان میں قدم رکھا۔ امرتسر ان دنوں پارچہ بافی کی صنعت کا مرکز تھا۔ اپنے بھائی چوہدری منظور الٰہی کے مشورے پر چوہدری ظہورالٰہی نے 6ہینڈ لومز یعنی کھڈیاں لگا کر کاروبار کا آغاز کیا اور اپنی محنت اور خداداد صلاحیتوں کے ذریعے وہ اس چھوٹے سے یونٹ کو جلد ہی 100 ہینڈ لومز اور 30 ہوزری مشینوں پر مشتمل منی ٹیکسٹائل ملز کی صورت دینے میں کامیاب ہو گئے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے اپنی خدمات مغویہ مسلمان خواتین کی بازیایی کیلئے رضاکارانہ طور پر حکومت کے سپرد کر دیں۔ اس کام کے نگران سول سروس کے افسر ملک عبد اللہ خالد کا تعلق بھی گجرات سے تھا۔ چوہدری ظہورالٰہی نے ساتھیوں کی مدد سے چھ ہفتے کام کیا اور اس دوران ڈھائی سو سے زائد مغویہ مسلمان خواتین کو ہندوئوں اور سکھوں کے چنگل سے آزاد کروایا اور 1947ء کے اواخر تک مغویہ خواتین کی بازیابی کے کام میں لگے رہے۔ چوہدری ظہور الٰہی نے امرتسر کی طرح گجرات میں بھی کرائے کے مکان میں چند دستی کھڈیاں لگا کر ہوزری و پارچہ بافی کا کام شروع کر دیا۔ وزیراعظم لیاقت علی خان کے دور میں ٹیکسٹائل کی ترقی کیلئے جو پہلا مشاورتی بورڈ بنا چوہدری ظہور الٰہی اس کے ممبر تھے۔ 1952ء میں وہ اس قابل ہو گئے کہ جاپان سے جدید قسم کی فنشنگ مشینری بھی درآمد کر لی۔ 1953-54ء تک انہوں نے ضلعی سیاست میں حصہ لینے کا حتمی فیصلہ کر لیا۔ کچھ عرصہ بعد ڈسٹرکٹ بورڈ کے انتخابات ہوئے۔ ظہور الٰہی بلامقابلہ صدر منتخب ہوئے۔ بعد میں انہیں ڈسٹرکٹ کونسل کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا گیا۔ 1958ء میں مارشل لا لگنے کے بعد حسین شہید سہروردی‘ مشتاق احمد گورمانی‘ ممتاز احمد خان دولتانہ‘ کرنل مجاہد حسین‘ نواب ممدوٹ کے ساتھ چوہدری ظہور الٰہی کو بھی ایبڈو کے تحت چھ سال کیلئے سیاست بدر کر دیا گیا۔ ظہورالٰہی نے ٹرائل کا سامنا کیا اور لگائے گئے الزامات سے پاک قرار دے دیئے گئے۔ وہ پنجاب کے واحد سیاسی رہنما تھے جو باعزت بری ہوئے۔ بی ڈی سسٹم کے تحت غیرجماعتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور کنونشن مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے قومی سیاست میں دوبارہ فعال کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ ایوب دور میں چوہدری ظہورالٰہی کو حکمران پارلیمانی پارٹی کا سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا اسی دور میں انہوں نے پاکستان پروگریسو پیپرز لمیٹڈ (پی پی ایل) کے اکثریتی حصص چوہدری محمد حسین سے 37 لاکھ میں خرید لیے اور مر حوم عنایت اللہ کے کہنے پر ’’مشرق اخبار‘‘ کے مالی معاملات کا بوجھ بھی اٹھا لیا۔ بعد ازاں گورنر مغربی پاکستان نواب امیر محمد خان آف کالا باغ اور ان کے درمیان اختلافات انتقام کی صورت اختیار کر گئے۔ اگست 1964ء تک مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی اور پارلیمانی پارٹی کی سیکرٹری جنرل شپ سے استعفیٰ دے دیا۔ پھر فروری 1965ء میں انہوں نے کنونشن لیگ کو خیرباد کہہ دیا۔ اس پس منظر میں 1965ء کے انتخابات کا سلسلہ شروع ہوا۔ چوہدری ظہورالٰہی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف درجنوں مقدمات بنے۔ انتخابی مہم کے دوران ٹیلی گراف ایکٹ سے اسلحہ ایکٹ تک بہت سے مقدمات درج ہوئے۔ اس سب کے باوجود چوہدری ظہورالٰہی نے ڈٹ کر مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا اور کونسل لیگ میں شامل ہو گئے۔ 1970ء کے انتخابات میں انہوں نے کونسل مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا اور کامیاب رہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو چوہدری ظہورالٰہی کو ایک بار پھر ’’ریاستی دہشت گردی‘‘ کا سامنا کرنا پڑا۔ بھٹو دور میں قید و بند کے زمانے میں استقامت اور حاکمانہ جبر کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا۔ جولائی 1978ء میں قومی اتحاد نے حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تو مسلم لیگی نمائندے کی حیثیت سے وفاقی وزیر محنت و افرادی قوت و سمندر پار پاکستانیوں کا قلمدان سنبھالا۔ 23 مارچ 1979ء کو انہوں نے ستر سالہ پرانے ایکٹ کو ختم کر کے نیا آرڈیننس دیا۔ بعد میں قومی اتحاد کے فیصلے پر ہی وہ حکومت سے الگ ہو گئے۔ چوہدری ظہور الٰہی کے خلاف ایوب خاں اور بھٹو کے ادوار حکومت میں درجنوں مقدمات درج کیے گئے۔ بعض میں گرفتاری بھی ہوئی ان سب میں مضحکہ خیز مقدمہ ایک بھینس کی چوری کا تھا جس کا پورے ملک میں تمسخر اڑایا گیا۔ بھٹو دور میں تو چوہدری ظہورالٰہی کے علاوہ ان کے اعزاء اور ملازموں کے خلاف بھی مقدمات درج ہوئے حتیٰ کہ ان کی اہلیہ محترمہ کو بھی نہ بخشا گیا۔ مجموعی طور پر چوہدری ظہورالٰہی کے خلاف 47مقدمات، ان کے بڑے بھائی اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویزالٰہی کے والد محترم چوہدری منظور الٰہی کے خلاف 4مقدمات، چوہدری شجاعت حسین کے خلاف 11مقدمات، چوہدری ظہور الٰہی کے بھتیجے اور داماد چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف بھی 11مقدمات اور چوہدری ظہورالٰہی کے بھتیجے چوہدری تجمل حسین کے خلاف 10مقدمات درج کئے گئے۔ گھریلو خواتین کو بھی کئی نوٹس جاری کئے گئے مگر چوہدری صاحب نے سرنہ جھکایا اور سیاست میں مردانگی اور شجاعت کی اعلیٰ روایات قائم کیں۔
SMS: #KMC (space) message & send to 8001

.