ادب پارے: ساغر نظامی

April 18, 2018

مشہور شاعر ساغر نظامی نےکسی مشاعرے میں ایک خاتون کو دیکھا اور حسبِِ عادت ہزار جان سے اس پر مائل ہوگئے۔ مشاعرے کے بعد موصوف اس خاتون کے پاس پہنچے اور کہنے لگے۔

’’اے دشمنِ ایمان وآگہی! کیا تم یہ گوارا کرو گی کہ میرے دل کے مرتعش جذبات تمہارے پاکیزہ عطر بیز تنفس کی آمد و شد سے ہم آہنگ ہوسکیں۔‘‘

بے چاری حسینہ اس انداز بیان کو بالکل نہ سمجھ سکی اور حیرت سے بولی ۔

’’آخر تم کہنا کیا چاہتے ہو؟‘‘

اب باکمال شاعر نے حقیقت پسندانہ انداز بیان میںکہا۔

’’میں چاہتا ہوں، تم مجھ سے شادی کرلو اور میرے بچوں کی ماں بننا گوارا کرو۔‘‘

حسینہ نے چند لمحے سوچا اور حیرت کے ساتھ دریافت کیا۔ ’’کتنے بچے ہیں تمہارے؟‘‘

……O……

ساغر نظامی کی بہن بھی شاعرہ تھیں اور مینا تخلص کرتی تھیں۔ ماجد حیدر آبادی سے چونکہ ساغر کی چشمکیں چلتی رہتی تھیں، اس لیے ساغر صاحب مشاعرے میں اس شرط پر جاتے تھے کہ ماجد صاحب کو نہیںبلایا جائے گا۔ ایک مشاعرے میں صدارت، ساغر نظامی کی تھی، چونکہ ماجد صاحب مدعو نہیںتھے، اس لیے وہ مشاعرہ سننے کے لیے سامعین میں آکر بیٹھ گئے۔ لوگوں کو جب پتا چلا تو سب نے شور مچادیا کہ ماجد صاحب کو ضرور سنیں گے اور مجبوراً چونکہ منتظمین کو ماجد صاحب کو دعوتِ سخن دینی پڑی۔ ماجد صاحب مائک پر آئے تو کہنے لگے کہ چونکہ مجھے مدعو نہیں کیا گیا تھا، اس لیے کوئی غزل ساتھ نہیںہے، البتہ دو شعر فی البدیہہ کہنے ہیں، جناب صدر اجازت دیںتو پیش کروں۔ اجازت ملنے پر یہ دو شعر سنائے:

پھر آگیا ہے لوگو برسات کا مہینا

لازم ہوا ہے اب تو سب کو شراب پینا

پہنچا جو میکدے میں، حیران رہ گیا میں

الٹا پڑا تھا ساغر، اوندھی پڑی تھی مینا

ایک مشاعرے کے اختتام پر جب ساغر نظامی کو اصل طے شدہ معاوضے سے کم رقم دی گئی اور اس کی رسید اس کے سامنے کی گئی تو وہ اسے دیکھتے ہی ایک دم پھٹ پڑے۔

’’میں اس رسید پر دستخط نہیںکرسکتا۔‘‘

اتنے میں مجاز وہاں آئے، انہوںنے یہ سنا تو سادگی سے منتظم کو مشورہ دینے لگے:

’’اگر دستخظ نہیںکرسکتے تو ساغر صاحب سے انگوٹھا ہی لگوالیجیے۔

……O……

جوش صاحب بمبئی کے ایک نہایت اعلیٰہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے، آفتاب غروب ہونے میں پانچ دس منٹ باقی تھے، مجاز ان کے پہلو میںپینے کے لیے بے چین بیٹھے تھے کہ ساغر آگئے۔ اتنے میں آسمان پر شفق پھیل گئی، سامنے کا سمندر گلابی ہوگیا ملائم ہوا سنکنے لگی اور دور شروع ہوگیا۔ جب نشہ گھنگھور ہونے کے قریب آیا، مجاز اٹھے ، ساغر کے گلے میںبانہیں ڈال دیں،

اس عالم میںمجاز نے کہا:

’’سغروا (ساغر) مجھے تجھ سے بے حد محبت ہے، تو میرا بڑا پیارا دوست ہے۔‘‘

ساغر نے کہا:

’’مجزوا (مجاز) مجھے بھی تجھ سے بے حد محبت ہے، تیرا سا دوست ملے گا کہاں؟‘‘

یہ سن کر ، مجاز اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے، اور کہنے لگے:

’’پیارے ساغر! اس میں کوئی شک نہیں کہ میں تجھ کو بے حد چاہتا ہوں، لیکن پیارے یہ اور بات ہے کہ میں تجھ کو شاعر تسلیم نہیں کرتا۔‘‘

یہ سنتے ہی ساغر نے رونا شروع کردیا۔ ساغر کو روتا دیکھ کر، وہ اپنی جگہ سے اٹھے، ساغر کی گردن میںپھر بانہیں ڈال دیں اور کہا:

’’ساغر! تیرا کوئی جواب نہیں۔‘‘

ساغر خوش ہوگیا۔ رونا بند ہوگیا۔ مجاز پھر اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گئے اور تھوڑی دیر میں انہوںنے جوش سے کہا:

’’جوش صاحب! میں ساغر پر اپنی جان تک نچھاور کرسکتا ہوں۔‘‘

ساغر، اس سے، دوڑ کر لپٹ گئے، ابھی وہ لپٹے ہوئے ہی تھے کہ مجاز نے کہا:

’’مگر یہ اور بات ہے ساغر کہ میںتجھ کو شاعر نہیںسمجھتا۔‘‘

ساغر نے پھر رونا شروع کردیا ، ہنستے ہنستے جوش اور مجاز کا برا حال ہوگیا۔