غزل: موجِ طوفاں کو میری زیست کا ساحل نہ بنا

September 09, 2018

موجِ طوفاں کو میری زیست کا ساحل نہ بنا

ہر تلاطم کو تو اب جادۂ منزل نہ بنا

مجھ پہ تنقید نہ کر، زہر بَھرے لفظوں میں

مَیں سمجھتا ہوں کہ مَیں پیار کے قابل نہ بنا

خود ہی بیگانہ ہوئے، غیر سے شکوہ کیسا!

مَیں تِری بزم میں احساس کے قابل نہ بنا

رفتہ رفتہ ہی سہی مِرے حالات بدل جائیں گے

مجھ کو قاتل نہ بنا، خود کو بھی بسمل نہ بنا

ہم نے گلشن بڑے ارمانوں سے تعمیر کیا

پھر بھی عنوانِ گلستاں مِرا ساحل نہ بنا

کاغذی پھولوں سے ایواں سجائے مَیں نے

ایک بھی پھول مگر رونقِ محفل نہ بنا

سرمگیں آنکھوں سے اب کیا ہو شکایت بسمل!

ہم نے کوشش تو بہت کی ہے، مگر دِل نہ بنا

(ڈاکٹر رانا محمّد اطہر رضا، کے ایس بسمل، فیصل آباد)