’’مودی‘‘ پھر پڑوس میں

June 03, 2019

میزبان:محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

رپورٹ:طلعت عمران

عکّاسی:اسرائیل انصاری

ڈاکٹر ہما بقائی
مشیر برائے وزیرِ خارجہ /تجزیہ کار ،
بین الاقوامی تعلقات

بھارت میں مودی کی شکل میں تبدیلی واقع ہوئی ہے، وہ اینٹی پاکستان نہیں، پرو انڈیا ہیں، انہوں نے سوشل سروس سیکٹر میں حیران کن کام کیا، مودی سے زیادہ طاقت ور اور محفوظ وزیر اعظم آج تک بھارت میں نہیں آیا، ہمیں بھارت پر تنقید کے بہ جائے امن اور مذاکرات پر زور دینا چاہیے، پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کا دارومدار امریکا اور چین کے تعلقات پر ہے، چین اس خطے کا واحد ملک ہے، جو پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر اثر انداز ہو سکتا ہے، اگر ہمارے بھارت سے تعلقات بہتر نہیں ہوں گے، تو ہماری مغربی سرحد پر بھی کشیدگی جاری رہے گی، مستقبل میں پاک، بھارت وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات ممکن ہے، پاکستان کی حیثیت ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے، جس نے دہشت گردی کا کامیابی سے مقابلہ کیا، اس وقت بھارت میں بھی 36باغی تنظیمیں موجود ہیں، مغرب کو پاکستان کی ضرورت رہتی ہے، پاکستان کا چیلنج بھارت نہیں، بلکہ معیشت ہے

ڈاکٹر ہما بقائی

اب بھارت میں مودی ازم کا راج ہے اور باقی تمام نظریات پیچھے رہ گئے ہیں، مودی کی پالیسی نہ صرف پاکستان بلکہ چین کے خلاف بھی جارحانہ رہے گی،

سردار اشرف خان
سابق صدر ،آزاد کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ
انڈسٹریز /ماہرِ امور کشمیر

اس وقت ہمارے پاس راستے بہت کم ہیں اور ہم زیادہ عرصے تک ’’چائنا کارڈ‘‘ نہیں کھیل سکتے، ہمیں بھارت کی طرح خود کو متحد کرنا ہو گا اور اپنے پالیسی از سر نو تشکیل دینی ہو گی، ہمیں کسی اور ملک کے بہ جائے اپنے مفادات کو پیش نظر رکھنا ہو گا، بھارت نے مغرب کے سامنے پاکستان کو ایک مشکلات پیدا کرنے والے ملک کے طور پر پیش کیا اور اس کے اس فلسفے کو پزیرائی بھی مل رہی ہے، مودی حکومت کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق شق 370ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، مودی اس شرط پر پاکستان سے مذاکرات پر آمادہ ہوں گے کہ موجودہ لائن آف کنٹرول کو باقاعدہ بین الاقوامی سرحد قرار دیا جائے اور پاکستان مسئلہ کشمیر سمیت کسی بھی معاملے پر آواز نہیں اٹھائے گا، اگر بھارت میں مودی انتہا پسندی کو فروغ دیں گے، تو اس کے ردعمل میں پاکستان میں انتہا پسند ہی برسر اقتدار آئیں گے

سردار اشرف خان

خالدامین
چانسلر، انڈس یونی ورسٹی

اس وقت پاکستان اور بھارت دونوں کے عوام ہی اذیت کا شکار ہیں، دونوں ممالک کو جنگ کے ماحول سے نکلنا چاہیے اور اپنے وسائل کو اپنے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنا چاہیے، بھارت میں مودی کا دوبارہ برسر اقتدار آنا پاکستان کے لیے نیک شگون نہیں، کیوں کہ انہوں نے کبھی بھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا، اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان دبئی کے راستے تجارت جاری ہے اور یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے، دونوں ممالک کو ہر صورت اختلافات کو ختم کرنا ہو گا، اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں جاری کشت و خوں کو روکنے کے لیے بات چیت کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہیے

خالد امین

بھارت میں لوک سبھا کے انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کے نتیجے میں نریندر مودی مسلسل دوسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہو چکے ہیں۔ ان انتخابات سے قبل پاکستان اور بھارت کے درمیان خاصی کشیدگی پائی جاتی تھی اور اس وقت فریقین کے تعلقات میں سرد مہری پائی جاتی ہے۔ تاہم، وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنے بھارتی ہم منصب کو انتخابات میں جیت کی مبارک باد پیش کی، جب کہ اس سے قبل وہ بھارت کو ایک سے زاید مرتبہ مذاکرات کی پیشکش بھی کر چکے ہیں۔ تاہم، بھارت کے رویے میں ہنوز سرد مہری پائی جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں کرغیزستان کے دارالحکومت بشکیک میں پاک، بھارت وزرائے خارجہ کی غیر رسمی ملاقات ہوئی اور ان دنوں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے درمیان جون میں ملاقات کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مودی کے وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دور میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی اور کشیدگی میں کمی واقع ہو گی یا نہیں۔ قبل ازیں، پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کا سلسلہ بھی جاری رہا اور دونوں ممالک کے شہریوں کی ایک دوسرے کے ملک میں آمدروفت بھی ہوئی۔ نیز، مشترکہ بینک قائم کرنے کا منصوبہ بھی زیر غور آیا، لیکن پھر ایسے حالات پیدا ہوئے کہ سارے سلسلے منقطع ہو گئے اور اب صرف کرتار پور راہداری کی بات ہو رہی ہے۔ پڑوسی ہونے کے ناتے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اچھے ہونے چاہئیں اور پاک، بھارت روابط کی نوعیت کے اثرات خطے کے دوسرے ممالک پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ نیز، مسئلہ کشمیر پر، دونوں ممالک کے درمیان وجۂ تنازع ہے، کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ علاوہ ازیں، ایک سوچ یہ بھی پائی جاتی ہے کہ بھارت میں دائیں بازو کی حکومت ہی مسئلہ کشمیر حل کر سکتی ہے۔ دوسری جانب اب بھارت کا چہرہ ایک سیکیولر ریاست کے بہ جائے ہندو ریاست کا نظر آ رہا ہے۔ اسی طرح حلف برداری کی تقریب میں عمران خان کو مدعو نہیں کیا گیا اور اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ان تمام سوالات کے جواب جاننے کے لیے گزشتہ دنوں انڈس یونی ورسٹی، کلفٹن کیمپس میں ’’مودی کی جیت اور پاک، بھارت تعلقات‘‘ کے موضوع پر جنگ فورم منعقد کیا گیا، جس میں وزیر خارجہ کی مشیر اور ماہر بین الاقوامی تعلقات، ڈاکٹر ہما بقائی اور امور کشمیر کے ماہر، سردار اشرف خان اور انڈس یونی ورسٹی کے چانسلر، خالد امین نے اظہار خیال کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔

جنگ :پاک، بھارت کشیدگی کم ہونے سے معیشت کی بہتری کے کتنے امکانات ہیں؟

خالد امین :اس وقت پاکستان اور بھارت دونوں کے عوام ہی اذیت کا شکار ہیں۔ دونوں ممالک کو جنگ کے ماحول سے نکلنا چاہیے اور اپنے وسائل کو اپنے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنا چاہیے۔ بھارت میں مودی کا دوبارہ برسر اقتدار آنا پاکستان کے لیے نیک شگون نہیں، کیونکہ انہوں نے کبھی بھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان دبئی کے راستے تجارت جاری ہے اور یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ دونوں ممالک کو ہر صورت اختلافات کو ختم کرنا ہو گا۔ اسی طرح کشمیر میں جاری کشت و خوں کو روکنے کے لیے بات چیت کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہیے۔

جنگ :کیا لوک سبھا کے انتخابات سے قبل دونوں ممالک کے تعلقات میں پیدا ہونے والی کشیدگی سے بھی مودی کو فائدہ پہنچا؟

ڈاکٹر ہما بقائی :ریاستی انتخابات کے دوران جب تین ریاستوں میں کانگریس نے برتری حاصل کی، تو اس وقت یہ سمجھا جا رہا تھا کہ لوک سبھا کے انتخابات میں بھی کانگریس برتری حاصل کرے گی۔ نیز، اس موقع پر راہول گاندھی اور پریانکا گاندھی نے زبردست انتخابی مہم چلائی، لیکن لوک سبھا کے انتخابات نے تو کایا پلٹ دی اور اس وقت کہا جا رہا ہے کہ مودی لہر نہیں، بلکہ سمندر ہے۔ ہم اکثر یہ کہتے ہیں کہ مودی کا برسر اقتدار آنا نیک شگون نہیں، لیکن ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ بھارت میں مودی کی شکل میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ ان انتخابات میں ٹرن آئوٹ 67فیصد تھا، جو حیرت انگیز حد تک زیادہ ہے اور 49فیصد پاپولر ووٹ مودی کو ملا۔ حالانکہ ٹائم میگزین نے انہیں ’’ڈیوائڈر ان چیف‘‘ کہا تھا اور انہوں نے اپنی پچھلی وکٹری اسپیچ میں سیکیولر ازم کو اٹھا کر پھینکنے کا کہا تھا۔ اس وقت بھارتی عوام مودی کے ساتھ ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ 45برس میں بھارت میں اتنی بیروزگاری نہیں ہوئی، جتنی مودی حکومت کے گزشتہ 5برسوں میں ہوئی، لیکن اس کے باوجود انہیں ووٹ ملے اور اس میں پاکستان کے لیے سبق پوشیدہ ہے۔ مودی نے سوشل سروس سیکٹر میں حیران کن کام کیا۔ انہوں نے بھارت میں کروڑوں بیت الخلاء تعمیر کروائے اور اب وہ کہتے ہیں کہ بھارت میں 96فیصد شہری ٹوائلٹ استعمال کرتے ہیں، جب کہ اس سے پہلے کھلے عام رفعِ حاجت بھارت کی شناخت تھی۔ اس کے علاوہ کروڑوں شہریوں کو گیس کنکشنز دیے اور کروڑوں افراد کے لیے کم لاگت کے رہائشی منصوبے شروع کیے اور جن افراد کو یہ سہولتیں نہیں ملیں، انہوں نے ان کی امید میں مودی کو ووٹ دیے۔ اس وقت بھارتی عوام مودی کے ساتھ کھڑے ہیں اور بی جے پی بھارت کی امیر ترین جماعت ہے۔

جنگ :کیا اینٹی پاکستان ووٹ بھی بی جے پی کو ملا؟

ڈاکٹر ہما بقائی :جی ہاں، وہ بھی اس پارٹی کو ملا۔ پلواما اٹیک کا بھارتی انتخابات پر وہی اثر ہوا، جو ہونا چاہیے تھا۔ مودی کو بھارتی عوام نے اس لیے بھی ووٹ دیا کہ انہوں نے پاکستان کے خلاف جارحانہ مؤقف اپنایا، چین کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی اور امریکا کی حمایت حاصل کی۔ اس موقع پر بھارت کا طاقت ور میڈیا بھی مودی کے ساتھ تھا، کیوں کہ بھارت کی اشرافیہ مودی کی حامی تھی۔ مودی نے یہ تاثر قائم کر دیا کہ اگر آپ میرے ساتھ نہیں ہیں، تو آپ بھارت کے ساتھ نہیں ہیں۔ گزشتہ چار سے پانچ دہائیوں بعد بھارت کو ایک ایسا لیڈر ملا ہے کہ جس کے بارے میں بھارتی عوام کا ماننا ہے کہ اگر ہم نے بھارت کو ووٹ دینا ہے، تو مودی کو ووٹ دینا ہے۔ نتیجتاً، بھارتی مسلمان اور مسئلہ کشمیر سمیت دیگر معاملات غیر متعلق ہو کر رہ گئے۔ مودی سے زیادہ طاقت ور اور محفوظ وزیر اعظم آج تک بھارت میں نہیں آیا۔ اس وقت کانگریس اس قابل بھی نہیں کہ وہ اپنا قائد حزبِ اختلاف لا سکے۔ اس کی بھارتی تاریخ میں پہلے مثال نہیں ملتی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اتنا طاقت ور اور محفوظ لیڈر خطے اور دنیا میں بھارتی تاثر کو تبدیل کر سکتا ہے۔ اب تک جو علامات سامنے آ رہی ہیں، وہ مثبت نہیں ہیں۔ اگرچہ مودی نے ’’پہلے پڑوسی‘‘ کا نعرہ لگایا، لیکن ان کی حلف برداری کی تقریب میں پاکستانی وزیر اعظم کے علاوہ سب کو دعوت دی گئی ۔ اس کی ایک وجہ بھی ہے اور وہ وجہ یہ ہے کہ گزشتہ برس جب پاکستان میں انتخابات میں عمران خان نے کامیابی حاصل کی تھی، تو انہوں نے مودی کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں مدعو نہیں کیا تھا۔ پاکستان کو اس وقت خود پر قابو رکھنے کی ضرورت ہے اور بھارت پر تنقید بند کر دینی چاہیے، کیونکہ مودی اس وقت بھارت کا مقبول ترین لیڈر ہے۔ ہمیں قیامِ امن اور مذاکرات پر زور دینا چاہیے۔ پاکستان کا مسئلہ اس وقت یہ ہے کہ چین کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا نے بھارت کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے اور پاکستان، چین کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہمیں امریکا اور چین کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم کرنا ہو گا۔ اس وقت چین اس خطے کا واحد ملک ہے، جو پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر اثر انداز ہو سکتا ہے اور آیندہ دو سے تین ماہ میں چینی صدر اور مودی کے درمیان ملاقات متوقع ہے۔ چینی صدر بھارتی وزیر اعظم کو ایس سی او (شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن) کے حوالے سے زبردست پیشکش کریں گے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کا دارومدار امریکا اور چین کے تعلقات پر ہے۔ چین، امریکا کو سی پیک کے حوالے سے اعتماد میں لینے کی کوشش کرے گا۔ یاد رہے کہ اس وقت بھارت میں جتنے بھی مقالے شایع ہو رہے ہیں، ان میں بھارت کو سی پیک کا فطری حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اگر بھارت اور چین کے درمیان تعلقات بہتر ہوتے ہیں، تو وہ امریکا سے تعلقات کے بہ جائے خطے پر توجہ دے گا اور اس طرح پاکستان اور بھارت کے تعلقات بھی بہتر ہوں گے۔

انڈس یونی ورسٹی میں ’’مودی کی جیت اور پاک ،بھارت تعلقات ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ جنگ فورم کا منظر اور شرکا کا ایڈیٹر جنگ فورم اکرم خان کے ساتھ گروپ فوٹو

جنگ :مودی کو اینٹی پاکستان ووٹ بھی ملا ہے، تو کیا پھر بھی وہ پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کریں گے؟

ڈاکٹر ہما بقائی: میں اسے اینٹی پاکستان نہیں سمجھتی، کیونکہ مودی نے ہر وہ حربہ استعمال کیا کہ جو پرو انڈیا ہو۔ البتہ وہ اس وقت اتنے طاقت ور لیڈر ہیں کہ اس دبائو سے باہر نکل سکتے ہیں۔ وہ یہ جواز پیش کر سکتے ہیں کہ اس وقت پاکستان بھارتی شرائط پر اس سے دوستی کے لیے تیار ہے ۔ یاد رہے کہ اگر ہمارے بھارت سے تعلقات بہتر نہیں ہوں گے، تو پھر ہماری مغربی سرحد پر بھی کشیدگی جاری رہے گی۔

جنگ :کیا آیندہ دنوں پاک، بھارت وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات ممکن ہے؟

ڈاکٹر ہما بقائی :جی بالکل ممکن ہے۔ میں ایک بار پھر یہ بتا دینا چاہتی ہوں کہ مودی بہت محفوظ ہیں۔ انہوں نے اپنے عوام کو یہ باور کروا دیا ہے کہ میں نے پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیکس بھی کر دیں اور اپنا پائلٹ بھی واپس لے لیا۔

جنگ :نریندر مودی کے دوسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کے بعد مسئلہ کشمیر میں کیا تبدیلی واقع ہو گی؟

سردار اشرف خان :ہم جب پاک، بھارت تعلقات کی بات کرتے ہیں، تو یہ بھول جاتے ہیں کہ بھارت نے ہمیشہ اپنے مفاد میں پالیسی بنائی ۔ بھارت کے اپنے اہداف ہیں، جنہیں امریکا تبدیل کر سکا ہے اور نہ ہی بھارت۔ اس کے برعکس ہماری کبھی کوئی پالیسی نہیں رہی۔ ہمیں ابھی تک اس بات کا تعین ہی نہیں کر سکے کہ ہم قومی ریاست ہیں یا مذہبی ریاست یا ہم ریاست ہیں بھی یا نہیں۔ 1948ء میں بھارت کے سابق آرمی چیف نے ایک کتاب لکھی تھی، جس کا نام تھا، ان کہی کہانی۔ تب یہ کشمیر آپریشن کے کمانڈر تھے۔ جب بھارتی فوج مظفر آباد پہنچ گئی، تو وہ اپنے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے پاس گئے اور آگے کا پروگرام پوچھا، تو انہوں نے جواب دیا کہ آگے جانے کی ضرورت نہیں، پاکستان خود ہی اگلے چھ ماہ میں ختم ہو جائے گا۔ یعنی بھارت نے پہلے دن ہی سے پاکستان کے بارے میں یہ تاثر قائم رکھا ہے کہ یہ ایک نا اہل ملک ہے۔ یہ ہمیشہ مشکلات پیدا کرتا ہے اور کبھی اقتصادی طور پر مستحکم نہیں ہو سکتا۔ اب بھارت میں مودی ازم کا راج ہے اور باقی تمام نظریات پیچھے رہ گئے ہیں۔ علاوہ ازیں، مودی نے ’’مائٹی انڈیا‘‘ کا تصور کھل کر پیش کیا اور دنیا کو بتادیا کہ ہمارے ساتھ ہمارے اسٹیٹس کے مطابق ہی تعلقات قائم کیے جائیں۔ بھارت کا پاکستان سے متعلق یہ تاثر ابھی تک قائم ہے کہ یہ جو کہتا ہے، وہ کرتا نہیں ۔ مودی کی پالیسی نہ صرف پاکستان بلکہ چین کے خلاف بھی جارحانہ رہے گی۔ بھارت نے اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کرنا ہے اور اس سلسلے میں صرف امریکا ہی اس کی مدد کر سکتا ہے۔ یاد رہے کہ اپنے گزشتہ دور حکومت میں مودی نے 40ارب ڈالرز کے ہتھیار خریدے تھے اور اب ان میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔ اب ایف 16طیارے بھی بھارت میں تیار ہوں گے۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ اس وقت مودی کا مزاج کیا ہے۔ اسی طرح اگر 2020ء میں امریکا میں ٹرمپ دوبارہ جیت جاتے ہیں، تو ہمارے لیے مزید مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ اس وقت ہمارے پاس راستے بہت کم ہیں اور ہم زیادہ عرصے تک ’’چائنا کارڈ‘‘ نہیں کھیل سکتے، کیوں کہ چین ہماری شرائط کے بہ جائے اپنی شرائط پر کام کرے گا۔ تاہم، بھارت اور چین ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست متصادم نہیں ہوں گے اور بھارت مغرب کو چین سے ڈراتا رہے گا۔ ہمیں بھی بھارت کی طرح خود کو متحد کرنا ہو گا اور ہمیں اپنے پالیسی از سر نو تشکیل دینی ہو گی۔ ہمیں کسی اور ملک کے بہ جائے اپنے مفادات کو پیش نظر رکھنا ہو گا اور یہی عمل ہماری قوت بنے گا۔ اس وقت ہم اندرونی طور پر کمزور ہیں اور اقتصادی طور پر دیوالیہ پن کے قریب ہیں۔ لہٰذا، ایسے ملک سے ایک ایسا ملک کیسے مذاکرات کرے گا کہ جو اس وقت عروج پر ہو۔ بھارت نے مغرب کے سامنے پاکستان کو ایک مشکلات پیدا کرنے والے ملک کے طور پر پیش کیا ہے اور اس کے اس فلسفے کو پزیرائی بھی مل رہی ہے۔ چند ماہ قبل جب بھارت نے پاکستان پر حملے اور 300افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ، تو مغرب نے اس پر فوراً یقین کر لیا۔ کشمیر میں اس وقت مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے اور مستقبل میں کشمیری مسلمانوں کو ایک بڑا دھچکا لگنے والا ہے۔ مودی حکومت کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق شق 370ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ایک مشہور بھارتی دانش ور کا کہنا ہے کہ اس وقت مودی کی آئینی ترمیم کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں، کیوں کہ انہیں ریاستوں میں دو تہائی سے زاید اکثریت حاصل ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں تقسیم پائی جاتی ہے اور ایسے میں کچھ بہتر ہونے کی امید نہیں کی جا سکتی۔ مسئلہ کشمیر پر ہماری باقاعدہ پالیسی ہی نہیں ہے۔ ہم اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کی بات کرتے ہیں، جب کہ اقوامِ متحدہ دنیا کی بڑی طاقتوں کا آلۂ کار ہے۔ یاد رہے کہ جرمنی اور جاپان شکست کھانے کے بعد دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑے ہوئے اور انہوں نے دنیا میں اپنا مقام بنایا، لیکن ہم شکست در شکست کھانے کے باوجود بھی خوابِ غفلت کا شکار ہیں۔

جنگ :تو کیا مودی پاکستان سے مذاکرات نہیں کریں گے؟

سردار اشرف خان :مودی اس شرط پر پاکستان سے مذاکرات پر آمادہ ہوں گے کہ موجودہ لائن آف کنٹرول کو باقاعدہ بین الاقوامی سرحد قرار دیا جائے اور پاکستان مسئلہ کشمیر سمیت کسی بھی معاملے پر آواز نہیں اٹھائے گا۔ اس شرط پر کام ہو رہا ہے یا مکمل ہو چکا ہے۔ دوسری شرط یہ ہو گی کہ بھارت پاکستان کو سری لنکا یا بنگلا دیش جیسے ملک کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔ مودی اپنی تقریر میں کہہ چکے ہیں کہ کیا ہم نے ایٹم بم دیوالی کے لیے رکھا ہوا ہے اور اس سے ان کے عزائم کا اظہار ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے بھارت نے کبھی اس قسم کی زبان استعمال نہیں کی۔ بھارت کی سیکیولر لیڈر شپ میں پاکستان سے متعلق کسی حد تک نرم گوشہ پایا جاتا تھا، لیکن موجودہ حکومت پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتی ہے اور اسی مقصد کے تحت ہی یہاں بغاوت اور دہشت گردی کو ہوا دے رہی ہے۔ لہٰذا، بھارت سے معاملات طے کرنے سے قبل ہمیں اپنے اندرونی اختلافات پر قابو پانا ہو گا۔

جنگ :عمران خان نے اپنی ایک تقریر میں مودی کی جیت کے حوالے سے اظہار خیال کیا تھا اور وہ اپنے بھارتی ہم منصب کو ایک سے زاید مرتبہ مذاکرات کی پیشکش بھی کر چکے ہیں، تو اس کے پیچھے کیا سوچ کار فرما ہے؟

سردار اشرف خان :ہم سفارتی محاذ پر مکمل طور پر تنہا ہو گئے ہیں اور اقوامِ عالم میں پاکستان کی سفارت کاری کو اتنی اہمیت بھی نہیں دی جاتی کہ جتنی افغانستان کی سفارت کاری کو دی جاتی ہے۔ بھارت نے پاکستان کے دو ٹکڑے کیے، لیکن اس کے باوجود بھی ہم نے دانش مندی سے کام نہیں لیا اور ہم اپنے مسائل و تنازعات کے حل کے لیے عالمی طاقتوں کی جانب دیکھتے ہیں۔ مستقبل میں بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے قبائلی اضلاع میں مشکلات بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ ہم نے کلبھوشن یادیو کو اپنے پاس سنبھال کر رکھا ہوا ہے اور پاکستان پر حملہ کرنے والے پائلٹ ابھی نندن کو فوراً واپس کر دیا۔ یہ بات ناقابلِ فہم ہے۔ دنیا کی سفارت کاری کی تاریخ میں ایسی مثال پہلے نہیں ملتی۔ ہمیں نے ابھی تک اپنی کوئی جامع و مربوط خارجہ پالیسی ہی نہیں بنائی۔ ہمیں اپنے اہداف کا تعین کرنا ہو گا۔ اس وقت پاکستانی معیشت کی صورت حال نہایت خراب ہے اور بیرونی امداد کے بغیر ہمارا گزارا ممکن نہیں، تو کیا ایسے حالات میں چین ہماری خاطر لڑے گا۔ یہ ہماری خام خیالی ہے۔ چین اپنی شرائط پر بھارت سے کہے گا کہ وہ گلگت بلتستان میں چھیڑ چھاڑ بند کر دے، تو وہ اسے سی پیک میں شامل کر لے گا۔ اگر ہم متحد نہ ہوئے اور ہم نے اپنے اندرونی اختلافات پر قابو نہ پایا، تو گلگت بلتستان میں بھی بے چینی کا اندیشہ ہے۔

ڈاکٹر ہما بقائی :سردار اشرف خان نے منفی اور جارحانہ انداز میں اظہارِ خیال کیا۔ یہ بات درست ہے کہ ہمارے اندر اتحاد کا فقدان ہے، ہمیں معاشی مشکلات کا سامنا ہے اور سفارتی محاذ پر بھی ہم تنہا کھڑے ہیں، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پاکستان لیٹ گیا ہے۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے، تو پھر مودی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کر کے بھاری اکثریت سے جیت کیسے گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی حیثیت ہے، البتہ اس حیثیت کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ آج سے 20برس قبل بھی اسی قسم کی باتیں کی جاتی تھیں، لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب حقیقت پر مبنی ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے، جس نے دہشت گردی کا مقابلہ کیا ۔ اس وقت بھارت میں بھی 36باغی تنظیمیں موجود ہیں۔ پاکستان نے بغاوت پر قابو پایا، چاہے اس مقصد کے لیے طاقت کا استعمال کیا گیا۔ بھارت بھی تو طاقت کا استعمال کر رہا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں طاقت کا بد ترین استعمال کر رہا ہے اور اب یہ کہا جانے لگا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ کشمیریوں کو بھارت سے نجات نہیں چاہیے، بلکہ بھارت کشمیریوں سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ہم نے بلوچستان اور قبائلی اضلاع میں معاملات کو ہینڈل کیا ہے اور ہماری اسٹیبلشمنٹ یہ درست کہتی ہے کہ اب نہ ہی 1971ء ہے اور نہ ہی وزیرستان بنگلا دیش ہے کہ آپ نے وہاں جو چاہا، کر لیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان دفاعی طور پر اب بھی بھارت سے ہزار گنا بہتر ہے۔ پاکستان کے بعد شارٹ رینج ٹیکٹیکل ویپنز موجود ہیں، جنہوں نے بھارت کی جدید وار ڈاکٹرئن کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ بلاشبہ پاکستان کو ان گنت مسائل کا سامنا ہے، لیکن پاکستان کو جھکنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش کی گئی اور پھر موخر ادائیگیوں پر پاکستان کو تیل دیا گیا اور آئی ایم ایف نے پاکستان سے معاہدہ کیا، تو یہ سب کیوں ہوا۔ پاکستان کو تنہا کیوں نہیں ہونے دیا گیا۔ درحقیقت مغرب کو پاکستان کی ضرورت رہتی ہے۔ نیز، چین سی پیک کے سلسلے میں پاکستان میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہا ہے اور وہ یہ سب صرف پاکستان کی مدد کے لیے نہیں کر رہا، لیکن وہ پاکستان کو بائی پاس بھی نہیں کر سکتا۔ اس وقت کو مسائل درپیش ہیں اور بھارت ان سے فائدہ بھی اٹھاتا ہے، لیکن پاکستان لیٹا نہیں ہے اور اس وقت حالت جنگ میں ہے۔

جنگ :عمران خان کی مودی سے ملاقات کے حوالے سے کیا تجاویز دیں گی؟

ڈاکٹر ہما بقائی: میں اس کمیٹی میں شامل ہوں۔ ہمارے چار اقدامات ہیں۔ امن، رابطہ، سفارت کاری اور مذاکرات۔ ہم ان اقدامات کو مذاکرات کی میز پر رکھنا چاہتے ہیں۔ مجھے یہ بتائیں کہ یورپ میں فرانس کی شرائط پر حالات بہتر ہوئے تھے یا جرمنی کی شرائط پر؟ کیا یہ بات کسی کو یاد ہے؟ اگر کسی کی بھی شرائط پر عمل سے خطے اور ملک کے حالات بہتر ہوتے ہیں، تو پھر ان پر عمل کرنا چاہیے۔ پرویز مشرف لائن آف کنٹرول کو فنکشنل بارڈر کہتے تھے، جب کہ آج اسے انٹرنیشنل بارڈر کا نام دیا جا رہا ہے۔ نام بدلنے سے کیا حاصل ہو گا؟ اس وقت یہ لائن آف کنٹرول ہے اور اگر یہ انٹرنیشنل بارڈر ہو جائے گا، تو کیا ہمیں کشمیر مل جائے گا؟

جنگ :مشرف دور میں بھی مسائل حل ہوئے تھے، لیکن ان کا نتیجہ کیا نکلا؟

ڈاکٹر ہما بقائی: اس میں تسلسل کا عنصر نہیں تھا۔ ہمیں بھارت کے بہ جائے جیو اکنامکس کے تناظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم جیو پالیٹیکس سے جیو اکنامکس کی طرف منتقل ہوتے ہیں، تو ہمیں بھارت سے تعلقات کے حوالے سے دوبارہ سوچنا ہو گا۔ مودی کی شکل میں بھارت کی نئی صورت سامنے آئی ہے۔ ہمیں حقائق کو سمجھتے ہوئے مل کر کام کرنا چاہیے، کیوں کہ بھارت نے اس سے قبل مودی سے زیادہ مضبوط لیڈر نہیں دیکھا۔

جنگ: لیکن مودی کی سوچ تو اینٹی پاکستان ہے؟

ڈاکٹر ہما بقائی: مودی کی سوچ اینٹی پاکستان نہیں، بلکہ پرو انڈیا ہے۔ یاد رہے کہ کشمیر کا مسئلہ بھارت کی موجودہ حکومت ہی حل کر سکتی ہے، جو انتہا پسند ہندوئوں پر مشتمل ہے۔ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے جہاں ہمیں دکھ پہنچ رہا ہے، تو یہ ان کے لیے دردِ سر بن چکا ہے اور انہوں نے اس کا کوئی نتیجہ نکالنا ہے۔

سردار اشرف خان :پاکستان نے ہمیشہ اپنی جیو اسٹرٹیجک اسٹرینتھ کو بیچنے کی کوشش کی ہے اور ہمیشہ یہ کہا ہے کہ ہم جیو پولیٹیکلی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ افغانستان کا مسئلہ ہمارے بغیر حل نہیں ہو سکتا اور ہمیں امریکا کو ہم سے بات کرنی پڑے گی۔ ممالک کے اپنے اہداف ہوتے ہیں، جنہیں وہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر سوویت یونین کو تباہ کرنا امریکا کا ہدف تھا اور اس سلسلے میں ہمیں آلے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ میرا ماننا ہے کہ پاکستان کو اپنی اس طاقت کو کمزوری نہیں بنانا چاہیے، بلکہ اپنی طاقت ہی رکھنا چاہیے۔ ہمیں خود کو متحد کرنا چاہیے، کیوں کہ آج پاکستان کو جتنی اتحاد کی ضرورت ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں رہی۔ اگر بھارت ہم سے مذاکرات نہیں کرنا چاہتا، تو نہ کرے۔ ہمیں اس کی فکر نہیں کرنی چاہیے۔ وہ ہم پر حملہ نہیں کر سکتا۔ البتہ وہ ہمارے ملک میں احساسِ عدم تحفظ کو ہوا دیتا رہے گا۔ ہمیں لوگوں میں پائی جانے والی احساسِ محرومی کو ختم کرنا ہو گا، تاکہ بھارت اس کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔

سید اظفر احمد :امریکا میں ٹرمپ نے پاپولزم کی سیاست کی اور کامیاب ہوئے اور بھارت میں مودی بھی ایک پاپولسٹ لیڈر بن کر سامنے آئے، تو کیا پاپولزم کی سیاست فروغ پزیر ہے؟

ڈاکٹر ہما بقائی :پاپولزم صرف سیکورٹی اور جارحیت کی وجہ سے برقرار نہیں رہتا، بلکہ اس کے لیے عوامی جذبات کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ ٹرمپ اس لیے مقبول ہوئے کہ انہوں نے سفید فام متوسط طبقے کے احساسِ عدم تحفظ پر بات کی۔ مودی اس لیے کامیاب ہوئے کہ انہوں نے بھارت کی سیکیورٹی اور خود کو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم قرار دے دیا۔ عمران خان اس لیے کامیاب ہوئے کہ انہوں نے کرپشن کو عوامی جذبات ابھارنے کے لیے استعمال کیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پاپولزم کی سیاست کے لیے عوامی جذبات کو سمجھنا پڑتا ہے اور اس رد عمل ظاہر کرنا پڑتا ہے اور صرف جواب دہ اور رد عمل دینے والا لیڈر ہی ایک پاپولسٹ لیڈر بن سکتا ہے۔ اس وقت امریکا، بھارت اور پاکستان میں ایک ہی قسم کے لیڈرز موجود ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ تباہ کن ہو، لیکن اس کے پیچھے عوام کی خواہش موجود ہے۔

جنگ :کیا عمران خان کا پاکستان میں وہ کردار ہے، جو بھارت میں مودی کا ہے؟

ڈاکٹر ہما بقائی :جی بالکل ہے۔ اب چاہے یہ کسی کو اچھا لگے یا برا۔ ہم نے عمران خان کو پاکستان کی بقا کے لیے لازمی قرار دے دیا ہے۔ تاہم، مودی کو اس وقت ٹرمپ اور عمران خان سے زیادہ توجہ حاصل ہے۔ اس وقت یورپ میں بھی پاپولزم کی سیاست ہو رہی ہے۔ اس کی مثال بریگزٹ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ فرانس میں کیا ہو رہا ہے۔ وہاں جو ہنگامے ہو رہے ہیں، تاریخ میں پہلے ان کی مثال نہیں ملتی۔

سردار اشرف خان :یہ بات درست ہے کہ امریکا اور یورپ میں پاپولزم کی سیاست فروغ پزیر ہے، لیکن اس کی وجہ سے آمریت کو تقویت ملتی ہے۔ ہم کوئی سپر پاور نہیں، بلکہ اس دنیا کا ایک عام سا ملک ہیں۔ ہمیں اپنے عوام کی فلاح و بہبود کو ترجیح دینی چاہیے۔ ہمیں ان کے لیے خوراک، صحت اور تعلیم کا بندوبست کرنا چاہیے۔ اگر ہم انہیں تحفظ فراہم نہیں کر سکتے، تو پورے خطے کو کیسے تحفظ فراہم کریں گے۔ ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہو گا۔ اگرچہ ٹائم میگزین نے مودی کو ڈیوائڈر لکھا، لیکن انہوں نے اپنی قوم کو متحد کر دیا۔ آج پاکستان میں طاقت کے لیے جدوجہد کی وجہ سے تقسیم پیدا ہو رہی ہے۔ اگر بھارت میں مودی انتہا پسندی کو فروغ دیں گے، تو اس کے ردعمل میں پاکستان میں عمران خان اور نواز شریف کے بہ جائے انتہا پسند دینی سیاسی جماعتیں ہی برسر اقتدار آئیں گی۔

ڈاکٹر ہما بقائی :یعنی عمران خان کی وجہ سے پاکستان انتہا پسند جماعتوں سے بچ گیا۔

محمد اسحٰق : پاکستان نے ہمیشہ امن اور مذاکرات کی بات کی ہے، لیکن کیا بھارت میں مودی کے دوبارہ منتخب ہونے سے دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا خدشہ تو نہیں؟

ڈاکٹر ہما بقائی: اس وقت نہ تو پاکستان جنگ برداشت کر سکتا ہے اور نہ ہی بھارت۔ نیز، اب جنگ روایتی محاذوں پر لڑی نہیں جاتی۔ پاکستان اور بھارت دونوں ہی ایٹمی طاقت ہیں اور جب بھی دونوں کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے، تو عالمی برادری فائر بریگیڈ کی طرح حرکت میں آ جاتی ہے۔ البتہ میں سردار اشرف کی اس بات سے اتفاق کرتی ہوں کہ اب جنگ معاشی، سفارتی اور عقلی محاذ پر لڑی جائے گی۔ یعنی ہماری معیشت اور جامعات کو تباہ کیا جائے گا۔ میں ہمیشہ یہ کہتی ہوں کہ پاکستان کا چیلنج بھارت نہیں، بلکہ معیشت ہے، معیشت ہے اور معیشت ہے۔

سردار اشرف خان :پاکستان کو اپنے سیاسی و سماجی نظام اور اقتصادی کمزوری کی وجہ سے خطرہ ہے۔ بھارت پاکستان پر ایٹم بم نہیں گرائے گا۔

ڈاکٹر ہما بقائی :اگر پاکستان معاشی طور پر تباہ ہو گیا ہے، تو اس کا جوہری پروگرام بھی رول بیک ہو جائے گا۔

سردار اشرف خان :پاکستان کا جوہری پروگرام رول بیک کرنا کافی عرصے سے مغرب کا ایجنڈا ہے اور اپنی حفاظت کے لیے ہمیں اپنی معیشت کو طاقت ور بنانا ہو گا۔ اس مقصد کے لیے ہمیں سیاسی افراتفری کو ختم اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہو گا۔ یہ بات کسی کی مخالفت میں نہیں۔ دنیا کو اپنی انگلیوں پر نچانے کی سوچ غلط ہے۔ اب کوئی کسی کی انگلیوں پر نہیں ناچتا۔ پاکستان کو کسی عالمی طاقت کے بہ جائے خود پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنے ملکی مفادات کے لیے قربانی دینا ہو گی۔ ہمیں متحد ہونا پڑے گا اور اپنی کوششوں سے معاشی طور پر خوشحال ہونا پڑے گا۔ یاد رکھیں کہ آئی ایم ایف یا کوئی دوسرا ملک آپ کو کچھ نہیں دے گا۔ ہم آئی ایم ایف سے قرض اور موخر ادائیگیوں پر تیل لے کر خوش ہو رہے ہیں، لیکن ہم نے کبھی یہ سوچا کہ جب یہ رقم ادا کرنی پڑے گی، تو تب روپے کی قدر مزید کم ہو چکی ہو گی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں سب سے پہلے اپنے اندرونی مسائل پر قابو پانا ہو گا۔

ہما بروہی :آپ نے کہا کہ پاکستان دنیا میں تنہا ہو چکا ہے، تو کیا دنیا میں دوبارہ اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو مغرب کی حمایت حاصل کرنا پڑے گی؟

ڈاکٹر ہما بقائی :ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ پہلے ہم ہر معاملے کو بھارت کے نقطہ نظر سے دیکھتے رہے اور اب چین کے نقطۂ نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں بھارت سمیت ہر ملک سے تعلقات بہتر رکھنے ہیں، کیونکہ یہ ہماری ضرورت ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اگر چین سی پیک کو فعال کرنا چاہتا ہے، تو وہ بھارت کو مصالحت پر آمادہ کرے گا۔

عدیل احمد :پاکستان کشمیریوں کی آزادی کی بات کرتا ہے، لیکن پاکستان ہی کے مختلف طبقات میں احساسِ محرومی پایا جاتا ہے۔ نیز، پاکستان کی خارجہ پالیسی کو موثر کیسے بنایا جا سکتا ہے؟

سردار اشرف خان: 1971ء کے بعد بھارتی وزیر اعظم ، اندرا گاندھی نے کشمیری رہنمائوں کو بلا کر کہا کہ اب دو قومی نظریہ ختم ہو چکا۔ لہٰذا، آپ بھی جدوجہد ترک کر دیں۔ ہم آپ کو کشمیر کی وزارتِ اعلیٰ دے دیا کریں گے۔ اس واقعے کے بعد 1979ء تک مقبوضہ کشمیر میں خاموشی چھائی رہی۔ کہا جا رہا ہے کہ اب مودی بھی کشمیری رہنمائوں سے دوبارہ یہی کہنے جا رہے ہیں۔ یعنی اگر ہماری تنخواہ پر گزار اکر سکتے ہو، تو کرو ورنہ ہم تمہیں قبرستان بھجوا دیں گے۔ اب مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے بہ جائے اپنی آزادی کے تحفظ کی ضرورت ہے۔ بھارت نے ہماری جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی کی، لیکن پاکستان نے اقوام متحدہ میں احتجاج تک نہیں کیا کہ ہمارے ملک میں بمباری ہوئی ہے۔

ڈاکٹر ہما بقائی :پلواما حملے کے بعد پاکستان نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور پاکستان بھارتی پائلٹ کو گرفتار رکھ کر کیا کرتا۔ وہ تو پاکستان کے لیے بوجھ ہوتا۔ ہمیں ابھی نندن کا کلبھوشن یادیو سے موازنہ نہیں کرنا چاہیے۔ کلبھوشن ایک جاسوس ہے، جبکہ پائلٹ جنگی قیدی تھا، جسے رہا کر کے پاکستان نے اسٹرٹیجک ڈپلومیٹک اہداف حاصل کیے۔

سردار اشرف خان :مودی کا کہنا ہے کہ میری دھمکی پر پاکستان نے پائلٹ واپس کیا۔ پاکستان نے بھارت پر جوابی حملہ نہ کر کے اچھا عمل کیا۔ ہمیں بھارت کو معاشی طور پر کمزور کرنا چاہیے۔ اس وقت پاکستان سفارتی طور پر تنہا ہے اور او آئی سی بھی اس کے حق میں بول نہیں رہی۔

ڈاکٹر ہما بقائی :پلواما حملے کے بعد پاکستان نے سفارتی محاذ پر بہت کچھ حاصل کیا۔ اگر پاکستان بھارتی حملے کا جواب دیتا یا بھارتی پائلٹ کو اپنے پاس رکھتا، تو یہ ایک علاقائی دیو کو اشتعال دلانے کے مترادف تھا اور ہم اس صورت حال میں جنگ کے متحمل کیسے ہو سکتے ہیں۔

سردار اشرف خان: پاکستان نے بھارت سے جنگ نہ کر کے اچھا فیصلہ کیا، لیکن ہمیں ابھی نندن کو مفت میں بھارت کے حوالے نہیں کرنا چاہیے تھا اور بارگیننگ کرنی چاہیے تھی۔ ہمیں عالمی طاقتوں کو شامل کر کے بھارت سے بعض ضمانتیں حاصل کرنی چاہیے تھیں۔

جنگ:مستقبل میں پاک، بھارت تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی؟

سردار اشرف خان :پاک، بھارت تعلقات میں بہتری کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔

ڈاکٹر ہما بقائی :مستقبل میں پاک، بھارت تعلقات کی نوعیت کا دارومدار مودی پر ہے، کیونکہ اس وقت مودی بھارت کے سب سے طاقتور اور محفوظ رہنما ہیں۔