میرے شہر کی وہ سہانی بارشیں

August 08, 2019

ہفتے بھر کی جھڑی لگنا کوئی انوکھی بات نہیں تھی

عبیداللہ کیہر

میری پیدائش سندھ کے شہر خیرپور کی ہے۔ 1972ء میں جب ہمارا خاندان خیرپور سے کراچی منتقل ہوا تو میری عمر صرف 6 سال تھی۔ کراچی میں لالو کھیت اور بڑا بورڈ کے علاقوں میں چند ماہ گزار کر ہم پہلے ہی سال شہر کی مضافاتی آبادی قائد آباد آگئے اور پھر ہمارے اگلے کئی سال یہیں گزرے۔ جہاں کراچی کے اس دور کی عیدیں، تفریحات اور رسوم و رواج میرے لیے یادگار ہیں، وہیں اس دور کی بارشیں بھی بڑی سہانی ہوا کرتی تھیں۔

اس زمانے میں اکثر گھر کھلے صحن والے اور ایک منزلہ ہوا کرتے تھے۔ کمروں کی چھتیں بھی کنکریٹ کی بجائے نالی دار جستی چادروں کی ہوتی تھیں اور ان کی ڈھال صحن کی جانب رکھی جاتی تھی، تاکہ بارش کا پانی چھت پر رُکے بغیر سیدھا صحن کی طرف آکر بہہ جائے۔

ان جستی چادروں کی چھتوں کی وجہ سے اس بات کا تو امکان ہی نہیں تھا کہ بارش کا پہلا قطرہ مکان کی چھت پر گرے اور مکینوں کو پتہ نہ چلے۔ بادلوں سے زمین کی طرف لپکنے والے ابتدائی قطروں سے ہی جستی چادروں کی چھتوں پر جلترنگ بجنا شروع ہوجاتے اور لوگ خوشی سے جھومتے ہوئے کمروں سے نکل کر کھلی جگہوں کی طرف لپکتے۔ بچے زور زور سے تالیاں بجاتے شور مچاتے دروازوں سے باہر نکل کر گلیوں اور میدانوں کی طرف دوڑ لگا دیتے۔

’اللہ میاں پانی دے، سو برس کی نانی دے‘

’آرَم پارَم چھما چھم، گیٹ سے نکلے جیسے ہم‘

بارشیں برستیں اور خوب برستیں۔ کئی کئی دن تک جھڑی لگی رہتی اور جل تھل ایک ہوجاتا،اس زمانے کے گلی کوچوں میں کچرا آج کے مقابلے میں بہت کم پایا جاتا تھا۔ پولی تھین کے شاپنگ بیگ تو خیر اس وقت ہوتے ہی نہیں تھے۔ چپس، چھالیہ، شیمپو، مسالے وغير کے ’ساشے‘ کا بھی کوئی وجود نہیں تھا۔

گھر کا سودا سلف لانے کے لیے تنکوں کی ٹوکری یا کینوس کا تھیلا ہوتا تھا۔ دودھ کا ڈول، گھی کا مرتبان، دہی کا پیالہ، تیل کی بوتل، آٹے کا ڈبا، چینی کی برنی اور اس طرح کی کئی چیزیں ہم گھر سے ساتھ لے کر جاتے اور دکاندار سے سودا ڈلوا کر لاتے تھے۔دیگر سودا بھی پلاسٹک کی تھیلیوں کی بجائے خاکی کاغذ کے لفافوں میں ملتا تھا۔ پیکنگ میٹیریل اور پروڈکٹ پریزنٹیشن کا کوئی وبال نہیں تھا۔ اس لیے معاشرے میں کچرا بہت کم ہوتا تھا۔ جا بجا کچرے کے ڈھیر نہیں ہوتے تھے۔ اس لیے جب بارش ہوتی تو ڈھلوانوں میدانوں میں بارش کا جو پانی جمع ہوجاتا وہ صاف ستھرا اور کچرے سے پاک ہوتا تھا، بلکہ لوگ ان برساتی تالابوں میں بلا تردد نہا بھی لیا کرتے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ قائدآباد پر ہمارے گھر کے برابر میں ایک کنکریٹ کا پکا نالا تھا جو ریڈیو پاکستان کالونی کے برساتی پانی کی ملیر ندی تک نکاسی کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ برسات کے دوران یہ نالا پہاڑی نالوں کی طرح گرجتا برستا شور مچاتا بہتا تھا اور محلے کے بچے اس کے اندر خوب اودھم مچایا کرتے تھے۔

برسات کے ختم ہونے پر کہیں کوئی تعفن نہیں اٹھتا تھا۔ کچرا کنڈیوں کی سڑاند کا کوئی تصور نہیں تھا۔ گٹر اور برساتی پانی کے ملغوبے کا کئی کئی دن تک بدبو پھلانے جیسا کوئی عذاب نہیں ہوتا تھا۔ برسات کے بعد بچے کھیل کود اور سیر و تفریح کے لیے دُور دُور جاتے۔ بارش کے بعد ہلکی سی دھوپ نکلتے ہی ہم میدانوں میں بیربہوٹیاں پکڑنے نکل جاتے۔ زمین پر نگاہیں جمائے بچے بار بار صدا بلند کرتے’بلبوٹی بلبوٹی پنجے کھول تیرا ماموں آیا‘تھوڑی ہی تگ و دو کے بعد ہر بچہ اپنے پاس موجود ماچس کی ڈبیوں میں کئی بیر بہوٹیاں پکڑ کر اپنے گھر لے آتا تھا اور سب کو فخر سے اپنا یہ مخملیں شکار دکھاتا۔

قائد آباد اور ملیر دونوں علاقے ملیر ندی کے اطراف میں آباد ہیں۔ ملیر ندی ہر سال برساتی پانی کے ریلوں سے بھر جاتی اور یہ بپھرا دریا کئی کئی روز بہتا رہتا تھا۔ لوگ دُور دُور سے قافلے بنا کر ملیر ندی کے کناروں پر پہنچتے اور ملیر ندی میں بہتے پُرزور و پُرشور پانی کا ہیبت ناک نظارہ کرتے۔

کچھ من چلے اپنی تیراکی پر بھروسہ کرتے ہوئے اس خطرناک پانی میں بھی چھلانگ لگا دیتے اور اپنی تیراکی کے جوہر دکھانے کی کوشش کرتے۔ اس خطرناک حرکت کے نتیجے میں کچھ تو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔

آج ہم کراچی کی ان موسلادھار، شاندار اور یادگار بارشوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ وہ بارشیں آج کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوا کرتی تھیں۔ ہفتے بھر کی جھڑی لگنا کوئی انوکھی بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔ خاص طور پر جمعے کے دن بارش شروع ہونے کا مطلب ہی یہی لیا جاتا تھا کہ اب یہ بارش لازماً اگلے جمعے تک چلے گی۔کراچی میں ملیر ندی کے علاوہ کئی اور بھی ندی نالے ہوا کرتے تھے جو بڑی سے بڑی برسات کے پانی کو آناً فاناً سمندر تک پہنچا دیتے تھے۔ لیاری ندی، تھدو ندی، جھڈو نالا، گجر نالا اور یہ سب ندی نالے بڑے وسیع، کچرے سے پاک اور خودرو پودوں یا عارضی باغبانی و کھیتی باڑی کا مرکز ہوتے تھے۔

کراچی کے نکاسی آب کے لیے یہی ندی نالے استعمال ہوتے تھے اور اس وقت ان کی وسعت کی وجہ سے ان کے اندر بہنے والے برساتی پانی کو سمندر تک پہنچنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی تھی۔ ان نالوں کے اندر نہ کوئی کچرا پھینکتا تھا اور نہ ہی ان میں قبضہ کرکے مکانات بنانے کی اجازت تھی۔

بارشیں عام طور سے گرمیوں میں ہی ہوتی تھیں اور یہ آموں کا بھی موسم ہوتا تھا۔ درختوں پر جگہ جگہ کوئل کوکتی سنائی دیتی تھی۔ آم تو خیر بارش سے پہلے ہی بازار میں آجاتے تھے لیکن لوگ زیادہ رغبت سے اس وقت کھاتے تھے جب ان پر ایک برسات گزر جائے۔ ہر گھر کے صحن میں کم از کم ایک درخت ضرور ہوتا تھا، جس میں بارش ہوتے ہی رسی کا جھولا بندھ دیاجاتا۔ گھر کی بچیاں برسات کا مزا لینے کے لیے ان جھولوں پر خوب زور زور سے جھولتیں اور ساتھ ہی بارش کے گیت بھی گاتی جاتیں,

’جھولا ڈالو ری، سکھی ساون آیو‘

’ساون کے دن آئے بالم، جھولا کون جھلائے

مرد، بچے اور بچیاں تو بارش کے مزے لینے میں مگن ہوجاتے اور عورتیں چولہوں کی طرف متوجہ ہوتیں۔ اب پکوڑے تلے جا رہے ہیں، سوجی کا حلوہ پک رہا ہے، پوریاں بن رہی ہیں، کڑکڑاتے تیل سے کچوریاں اتر رہی ہیں، نرم گندھے ہوئے میدے سے میٹھا مال پُڑا تیار ہو رہا ہے، میٹھی اور بیسنی روٹیاں بن رہی ہیں اور ہر گھر سے اشتہا انگیز خوشبوئیں اٹھ رہی ہیں۔ بچوں کو بازار دوڑایا جا رہا ہے کہ وہ جلدی سے جاکر گرما گرم جلیبیاں اور سموسے لے کر آئیں۔

شام ہوتے ہی اس بات کا خدشہ سر اٹھانے لگتا کہ بلب کی روشنی پر خوب پتنگے آئیں گے اور جینا حرام کریں گے، چنانچہ ہر بلب کے اوپر مومی لفافہ چڑھایا جاتا، تاکہ روشنی کی تیزی کم ہوجائے اور پتنگے نہ آئیں۔

برسات کئی کئی دن جاری رہتی، حتیٰ کہ بچے نہا نہا کر اور بڑے چھتریاں اٹھائے اٹھائے تھک جاتے۔ بالآخر ساون بیت جاتا اور بارشیں ختم ہوتیں۔ برسات کے چند ہی دن بعد کراچی کی سرزمین سر سبز ہوجاتی۔ کھلے میدان، سڑکوں کے کنارے، ریلوے لائنوں کے اطراف اور سارے خالی پلاٹ ہری بھری نرم گھاس سے ڈھک جاتے۔ شہر کے مضافات میں ملیر اور گڈاپ کے ویرانے اور نشیب و فراز سوات اور کاغان کی وادیوں کا منظر پیش کرنے لگتے اور اس سرسبزی و شادابی کو دیکھ کر اہلیانِ کراچی کا دل بھی باغ باغ ہو جاتا۔

ملیر ندی کے اطرف اور کراچی کے مضافات میں بے شمار کنویں ہوا کرتے تھے جن کے میٹھے پانی سے کھیتی باڑی اور باغبانی ہوا کرتی تھی۔ ان کنووں میں پانی ہونے کادار و مدار انن ہی بارشوں پر ہوتا تھا۔ ندی نالوں میں سال میں کم از کم ایک مرتبہ برساتی پانی کا بھر کر بہنا ان کنوؤں میں پانی ہونے کے لیے ضروری ہوتا تھا، چنانچہ بارشیں بھی خوب ہوتی تھیں اور کنویں بھی سارا سال ٹھنڈے میٹھے پانی سے بھرے رہتے تھے۔ کون سا پھل اور کونسی ایسی سبزی تھی جو کراچی کے باغات میں پیدا نہ ہوتی ہو۔

برسات کے دنوں میں اکثر ہم دوستوں کے ساتھ مل کر ان باغات کا رخ کرتے۔ باغات میں پھل درختوں سے توڑ کر کھاتے، باغ کے ٹیوب ویل پر ٹھنڈے اور تیز رفتار پانی سے خوب نہاتے اور گھر واپس آتے ہوئے باغ کے بلوچ رکھوالے سے گھر کے لیے بلا معاوضہ سبزی بھی لیتے۔

پھر اللہ جانے ان سب چیزوں کو، اس شہر کو، کس کی نظر لگ گئی۔ آبادی میں نہ جانے کیسے بے تحاشہ اضافہ ہوتا گیا۔ افراتفری اور نفسا نفسی بڑھتی چلی گئی۔ شہر کی سیاست پر عدم برداشت اور تشدد غالب آتا چلا گیا۔گھروں کی دیواریں اونچی سے اونچی ہوتی چلی گئیں۔ آہنی گرل اور تالے کا کاروبار تیزی سے پھلنے پھولنے لگا۔ ندی نالوں پر لوگوں نے قبضے کرلیے۔ ہر جگہ اینگے بینگے ٹیڑھے میڑھے مکان تعمیر ہوتے چلے گئے۔

سڑکیں وہی کی وہی رہیں ،مگر ٹریفک بے تحاشا بڑھتا چلا گیا۔ لاکھوں موٹر سائیکلیں، گاڑیاں، کاریں، بسیں اور ٹرک اپنے شور اور دھویں کے ساتھ شہر پر قابض ہوتے چلے گئے۔ خوبصورت، پائیدار اور مہنگی جاپانی موٹر سائیکلوں کی جگہ بھدی، نا پائیدار اور سستی چینی موٹر سائیکلوں نے لے لی۔ موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں معمولی قسطوں پر ملنے لگیں اور شہر کی سڑکوں پر ٹریفک کا اژدہام دن دونی رات چوگنی بڑھتا رہا۔ موٹر سائیکل والے سائلنسر نکال کر ایک بلند و بیہودہ آواز کے ساتھ راہگیروں کے کان پھاڑتے ہوئے موٹر سائکل دوڑانے میں فخر محسوس کرنے لگے۔دوسری طرف کاغذ کے لفافوں کی جگہ کالے نیلے پیلے شاپنگ بیگز نے لے لی۔ یہ پلاسٹک کی تھیلیاں نہ گلتی ہیں نہ مٹی میں معدوم ہوتی ہیں۔ ان تھیلیوں کے معمولی حجم ،مگر بے ہنگم پھیلاؤ نے پورے معاشرے کو اپنی غلیظ گرفت میں لے لیا۔

پھر رہی سہی کسر پلاسٹک کی بوتلوں نے پوری کر دی۔ کولڈ ڈرنک، جوس، تیل، شربت، پانی، کیمیکل غرض ہر چیز ان پلاسٹک کی بوتلوں میں آگئی۔ دنیا بھر میں پلاسٹک کے اس طوفان کے آگے بند باندھنے کی کامیاب کوششیں کی گئیں، مگر یہاں اربابِ اختیار تھیلیاں اور بوتلیں بنانے والوں کے شریکِ کار ہوگئے۔

سڑکیں ناپائیدار، صفائی ناقص و نایاب، آلودگی بے تحاشہ، نکاسی آب کے راستے مسدود اور سیاست تعصب اور کرپشن کا شکار۔ حالات دن بدن دگرگوں ہوتے چلے گئے۔ پھر تو فطرت نے بھی اس شہر سے منہ موڑا۔ مہربان بارشوں نے اس شہر کا رخ کرنا چھوڑا اور اب جو بھی ابر و باراں اس شہر کی طرف آتے ہیں، بربادی و بے سرو سامانی ہی کا باعث بنتے ہیں۔

کراچی کی وہ مہینوں مہینوں جاری رہنے والی بوندا باندی اور بارشیں تو خواب ہوئیں۔ سال میں بس ایک یا دو دن کی موسلادھار بارش ہی اس شہر کے سارے سرکاری انتظامات کی قلعی کھول دینے کے لیے کافی ہوتی ہے۔

کراچی کے وہی باسی جو کسی دور میں بارش ہونے کے لیے دعائیں کرتے تھے، اب بارش کی پہلی بوند سے ہی گھبرا جاتے ہیں۔ والدین بچوں کو اسکول بھیجنے سے کتراتے ہیں اور کام کرنے والے اپنے کام پر جانے سے گھبراتے ہیں۔ کہیں بارش نہ ہوجائے اور ہم واپسی میں سڑکوں پر پانی جمع ہونے کی وجہ سے شام کو گھر ہی نہ پہنچ پائیں۔