’ملکیت کا تنازعہ‘ سوتیلی ماں نے پورے خاندان کو موت کی نیند سلادیا

December 08, 2019

کسی بھی معاشرے میں جرائم کی بیخ کنی اور ظلم کی روک تھام کرکے، امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے میں پولیس کا کردار غیر معمولی اہمیت کا حامل ہو تا ہے ۔ یہ پولیس ہی ہے جو کہ جرائم پیشہ عناصر کو قانون کی گرفت میں لا کر قرار واقعی سزا دلواتی ہے۔ معاشرے میں امن و امان کی اورو اخوت و بھائی چارے کی فضا ء کو بر قرار رکھتی ہے کسی معاشرے میں اگر پولیس اپنے فرائض کی انجام دہی سے منہ موڑ لے تو پھر وہاں لاقانونیت کا را ج قائم ہو جا تا ہے وہ معاشرتی پستی کی جا نب گا مزن ہو جا تا ہے۔ ایسا ہی ایک افسوس ناک واقعہ نئے انداز اور طریقے سے پیش آیا، جس میں پولیس کی ابتدائی تحقیقات خاصی مایوس کن تھیں۔

جنگ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق پنوعا قل شہر سے تین کلومیٹر دو رکینٹ پولیس اسٹیشن کی حدود میں واقع ایک گائوں ستابو انڈھڑ میں ایک ہی گھر کے 06 افراد جن میںمیاں بیوی اوران کے چار بیٹے شامل ہیں پراسرار طور پر جاں بحق ہو گئے جن میں 05 ایک ہفتہ کے دوران وقفے وقفے سے جاں بحق ہو ئے جب کہ 19دنوں بعد خاتون بھی چل بسی۔ طبی ماہرین کے مطابق ان کی ہلاکت زہرخورانی کے سبب ہوئی۔ نصف درجن افراد کی ہلاکت کا واقعہ ایک معمہ بنا ہوا تھا جو لیبارٹری ٹیسٹوں کی رپورٹ کے بعد اپنے منطقی انجام پر پہنچا اور واقعے میں ملوث قاتل کا سراغ لگا لیا گیاہے۔ اس المناک واقعہ میں ایک ہی خاندان کے06ا فراد کی ہلاکت یقیناًبہت بڑا سانحہ ہے جس سے پورا علا قہ سوگ میں ڈوبا ہوا ہے۔ اچا نک اور پراسرا رانداز میں اتنی ہلاکتیں باعث تشویش ہیں جس سے شہر میں خو ف ہراس پایا جا تا ہے۔

نمائندہ جنگ نے فاتحہ سوئم کے بعدمتا ثرہ خا ندان کےرشتہ دار افراد سے ملاقات میں جب اس واقعے کے متعلق استفسار کیا گیا تو ہلاک ہو نے والے اعجاز احمد انڈھڑ کے چھوٹے بھائی امتیاز احمد انڈ ھڑ جو کہ غم سے نڈھال تھے، بتایاکہ وقوعے والے دن دوپہر کے بعد واقعہ میں جاں بحق ہو نے والے دو بچوں اور ان کے والد کی طبیعت اچانک نڈھال ہو گئی ۔انہیں تعلقہ اسپتال پنوعا قل لے جایا گیا ۔

لیکن بچوں کی طبیعت میں افاقے کی بجائے ان کی حالت مزید تشویش ناک ہوتی جارہی تھی، جس کے بعدانہیں سول اسپتال سکھر منتقل کیا گیا، لیکن وہاں سے ان تینوں کو کراچی کے اسپتال منتقل کرنے کے لیے کہا گیا۔ ان افراد کو ایمبولینس میں کراچی لے جایا جارہا تھا کہ کے12سالہ شمس الدین زندگی کی بازی ہار گیا۔ اس بچے کی میت دیگر ورثاء گائوں واپس لے کر آئے ۔ اعجاز احمد انڈ ھڑ اور اس کے بیٹے شیراز کو جناح اسپتال کرا چی دا خل کیا گیالیکن وہ بھی جانبر نہ ہوسکا۔اس سانحے پر نہ صرف ورثاء پر سکتہ جاری ہو گیا بلکہ پو را علا قہ افسوسناک خبر سن کر غمزدہ ہو گیا ۔

صوبائی وزیر صحت سندھ ڈا کٹر عذرا پیچونے اتنی بڑی تعداد میں ہونے والی ہلاکتوں کا فوری نوٹس لے کر حکام کو تحقیقات کا حکم دیا۔جس کے نتیجے میں تشکیل دی جا نے والی تحقیقاتی ٹیم کے ارا کین ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرڈا کٹر عبدالحئی ،فوکل پرسن ڈا کٹر غلام شبیر دایوو دیگر نے متاثرہ خاندان سے ملاقات کر کے تفصیلات حاصل کیں۔ شیرازکو کراچی سے واپس لاکر اسے اس کی والدہ کے ساتھ سول اسپتال سکھر میں دا خل کرایا گیا جہاں اس کے علاج معالجے کے لئے خصو صی انتظامات کئے گئے تھے۔ تاہم وہ بھی جانبر نہ ہوسکا جب کہ آخر میں متوفی اعجاز احمد انڈ ھڑکی اہلیہ اورمرنے والے بچوں کی والدہ بھی موت اور زندگی کی کشمکش میںمیں مبتلا رہنے کے بعد سول اسپتال سکھر میں دم توڑ گئیں۔

اس واقعے میں ہلاک ہونے والے دو بچوں مجیب الرحمن اورشمس الدین کے اجزاء کیمیکل لیبارٹری سکھر ایٹ روہڑی جب کہ پیتھا لو جیکل ٹیسٹ کے لئے گمس اسپتال گمبٹ بھجوائے گئے جن کی رپورٹس میں (zinc phosphide) زہر کے اثرات سے اموات کی تصدیق کی گئی۔لیبارٹری رپورٹ آنے کے بعد ایس ایس پی سکھر عرفان سموں نے ڈی ایس پی پنوعا قل، لیاقت علی عباسی ،ایس ایچ او کینٹ جا وید میمن پر مشتمل تفتیشی ٹیم بنا کر واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا۔ متوفیان کے پسماندگان سے پوچھ گچھ کے بعدپولیس نے متوفی اعجاز احمد انڈ ھڑ کی سوتیلی والدہ کو حراست میں لے لیا ہے۔

جس سے مزید تفتیش جا ری ہے متاثرہ خاندان کے مطابق سوتیلی ماں سے مکان کاتنازعہ چل رہا تھا جس کی بناء پر اس نے کھانے میں زہر ملادیا۔ تاہم پولیس کی حتمی تفتیش تک کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ مذکورہ سانحے کی تحقیقات جاری ہیں۔ اس واقعہ کا مقدمہ پولیس مدعیت میں پنوعا قل کینٹ پولیس اسٹیشن پر درج کر لیا گیا ہے جس کا نمبر 62/2019 ہے جب کہ پولیس دیگر کیس کا دیگر پہلووں سے بھی جائزہ لے رہی ہے۔