میں چاہتی ہوں کچی بستیوں تک بھی علم کی روشنی پھیلے

February 29, 2020

بلاشبہ پاکستانی نوجوان باصلاحیت اورکچھ منفردومثبت کام کرنے کے جذبے سے مالا مال ہیں،جس کے لیے انہیں اس بات کی بھی پرواہ نہیں ہوتی کہ ان کے پاس کتنے وسائل ہیں اور اس کام کے لیے انہیں کیا دشواریاں درپیش ہوں گی۔ایسے نوجوان جب اپنے اردگرد سہولتوں سے محروم افراد کو دیکھتے ہیں تو ان کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ انہیں ہر مشکل اور رکاوٹ عبور کرنے کے قابل بناتا ہے اور وہ اپنے علم اور ہنر سےمعاشرے کی خدمت کے لیے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ایسے ہی نوجوانوں میں اروحہ ڈار بھی ہیں،جوتعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ غریب بچوں کے لیے بھی حصول علم کا ذریعہ بن رہی ہیں۔

اس مقصد کے لیے انہوں نے ناصرف مفت تعلیم کے لیے اسکول کا آغاز کیا بلکہ بانس کی مدد سے کلاس رومز بنوا کرماحول کوآلودگی سے بچانےکے حوالے سےلوگوں کو شعوربھی دیا ہے۔ اس حوالے سے گفت گو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’’میں نے 2017میں الیکٹریکل انجینئرنگ میںاین ای ڈی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا ہے اور جب میں تھرڈ ائیر میں تھی تواکثر ہماری یونیورسٹی کے مرکزی دروازے پر ٹیشو پیپیرز فروخت کرتے ہوئے غریب بچے نظر آتے ،جن کے پیروں میں چپل تک نہیں ہوتی،یعنی وہ اسٹریٹ چلڈرنزتھے۔ایک دن میں نے دیکھا کہ وہ بچےدائرہ بناکر تیز آواز میں اے بی سی ڈی پڑھ رہے تھےاورایک بچہ انہیں پڑھا رہا تھا ،وہ بچے بہت شوق اور خوشی سے پڑھ رہے تھے۔

مجھے تجسس ہوا تو میں نے ان سے سوالات کرنا شروع کیے،میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو پڑھائی کا شوق کیوں ہےتو ان میں سے ایک بچے نے کہا کہ ہمیں آپ کی طرح بڑے ہوکر آپ کی یونیورسٹی میںہی پڑھنا ہے۔اس جملے سے میں بہت متاثر ہوئی ،میں نے بہت سوچا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے،اس وقت نہ میرے ذہن میں کوئی آرگنائزیشن تھی، نا ہی کسی بڑے لیول پر کام کاسوچا تھا،میں خود ایک طالبہ تھی۔تو میں نے اپنے وسائل استعمال کرتے ہوئے انہیں فُٹ پاتھ پر ہی پڑھانا شروع کردیا۔میںانہیں روز پڑھاتی تھی،کبھی کچھ کھانے پینے کی چیزیں بھی ساتھ لے جاتی تھی۔

میں نے انہیں چھے ماہ تک بنیادی تعلیم دی۔مجھے دیگر اسٹوڈنٹس اور میرے کلاس فیلوز نے بہت سپورٹ کیا۔ظاہر ہے وہ یونیورسٹی کا ہی فٹ پاتھ تھا تو لوگ آتے جاتے دیکھتے تھے۔اس کے ساتھ ہی یونیورسٹی نے بھی بہت تعاون کیا۔بچوں کو کلاس دینے کے لیے یونیورسٹی نے ایک چھوٹا کمرہ اور گارڈ بھی دیا۔یہ کمرہ کافی عرصے سے خالی پڑا تھا ۔انہوں نے کہا کہ اسے کلاس روم کے طور پر استعمال کریں۔تو میں نے ایک سال تک اس گارڈ روم کو بطور کلاس روم استعمال کیا۔اس دوران مجھے بچوں کو پڑھانے کے لیے والینٹئیرز بھی مل گئے،اس حوالے سے کلاس فیلوز نے بھی بہت تعاون کیا‘‘۔ہمارے اس سوال پر کہ بنیادی تعلیم کےساتھ روایتی تعلیم کی طرف کیسے آئیں؟اروحہ ڈار نے بتایا کہ،’’ جب ہمارے پاس تقریباً بیس ،پچیس بچے ہوگئے،تو میں نے سوچاکہ ہم بچوں کو صرف بنیادی تعلیم دے رہے ہیں، اگرانہیں مستقبل دینا ہے تویہ صحیح نہیں ہے،لہذا میں نے نصاب اور کلاسسز کے لیے کچھ پرائیویٹ اسکولوں سے تعاون مانگا،لیکن کوئی ایک بھی اس بات پر راضی نہ ہوا کہ یہ بچے ان کے اسکولوں میں فارمل تعلیم حاصل کریں،حالانکہ ہم نے کوئی رعایت بھی نہیں مانگی تھی۔ہم نے کہا بھی کہ ہم اسٹوڈنٹس کی پوری فیس ادا کریں گے۔ہر کسی نے صاف انکار کر دیاکہ یہ بچے تو ہمارے اسکول میں پڑھ ہی نہیں سکتے۔سرکاری اسکولوں سے رجوع کرنا بے کار ہی تھا کیوں کہ، ہم نے تیرہ بچوں کو چھے ماہ کے لیے سرکاری اسکول بھیجا لیکن ،ان میں کو مثبت تبدیلی نظر نہ آئی۔

تین سال تک یہ سلسلہ چلتا رہا،بالآخر ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں اپنا اسکول بنانا ہوگا،جس کی تعلیم کا معیار ہمیں وہی رکھنا ہوگا جیساکسی بھی پرائیوٹ اسکول کا ہوتا ہے،لیکن ہمیں بالکل مفت تعلیم دینی ہوگی۔ا س کے لیے ہم نے کوشش کی کہ کوئی زمین مل جائے،لیکن ہم خرید نہیں سکتے تھے کیوں کہ ہم خود اسٹوڈنٹس تھے،پھر ہم نے یونیورسٹی کے سامنے خالی زمین کے مالک سے ملاقات کی اور اپنا مسئلہ بتایا۔انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ کچھ سال کے لیے یہ زمین لے لیںاور بچوں کو وہاں تعلیم دیں‘‘۔بانس کے کلاس رومز بنانے کا خیال کیوں آیا؟’’چوں کہ وہ زمین ہماری اپنی نہیں تھی تو ہم نے اس پر اسکول کا ایسا ماڈل بناناچاہاجسےکسی دوسری جگہ بآسانی منتقل کیا جاسکے۔ہم نے یہی سوچا کہ ابھی ہم اسکول شروع کر دیتے ہیں جب ہم سیکھ جائیں گے اور کوئی مناسب جگہ مل گئی تو ہم اسکول وہاں شفت کر لیںگے۔لہذ ہم نے این ای ڈی کی ہی ایک طالبہ سیدہ حفصہ فاطمہ سے بانس کی اسکول کلاسیںبنانے کو کہا۔

وہ این ای ڈی میں سول انجینئرنگ کی طالبہ ہیں، انہوں نے ’’بانس اسکول ماڈل‘‘ دیا،اس کا فائدہ یہ ہے کہ یہ ماحول دوست ہونے کے ساتھ بآسانی دوسری جگہ منتقل بھی ہوسکتا ہے اور رنگین بانسوں سے مزین ہونے کی بنا پر بچوں کے لیے دلکش بھی بہت ہے ،لہذا تین سیمنٹ اور تین بانس کے کلاس روم بنائے۔وہاں ہم نے بہت سر سبزپودے بھی لگائے ہیں،یہ جگہ چھے سو گز کے رقبے پر ہے۔چھے کلاس رومز میں پڑھائی ہو رہی ہے‘‘۔آپ کی ٹیم میں کتنے لوگ ہیں؟اروحہ ڈار نے بتایا کہ’’اس وقت ہم پینتیس ممبرز کام کررہے ہیں،جبکہ ہمارے ساتھ ساٹھ یا ستر والنٹئیرز ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ دیگر کچی بستیوں میںبھی ماحول دوست مزید اسکول بنائیں،تاکہ ان کچی بستیوں میں ہمارا سرمایا ضائع نہ ہو اور علم کی روشنی وہاں تک پھیلے۔