26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سب سے بڑی مشکل یہ ہے آرٹیکل191اے کے دائرہ اختیار میں بیٹھ کر اسے کیسے نظر انداز کردیں؟ ، آرٹیکل 191 جائز شق ہے تب ہی آئین کا حصہ ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 8 رکنی آئینی بینچ نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان، جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران کہا کہ سنی اتحاد کونسل کے وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا عدالت نے طے کرنا ہے کہ آرٹیکل 191 اے جائز ہے یا نہیں۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ آرٹیکل 191 اے کو درست یا غلط قرار دینے کا فورم کون سا ہوگا؟
جسٹس عائشہ ملک نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر کوئی آئینی بینچ نہ بنایا جائے تو کیا سپریم کورٹ آرٹیکل 84 تھری کےتمام مقدمات سننا بند کر دےگی؟، سپریم کورٹ انکار کر دے گی کہ ہم آئینی معاملات نہیں دیکھ سکتے؟ کیا مستقبل میں اب کبھی بھی فل کورٹ نہیں بن سکے گا؟، کیا فل کورٹ آرٹیکل 191 اے کی وجہ سےجوڈیشل کمیشن کے مرہون منت رہے گا کہ وہ کون سےجج کو نامزد کریں؟۔
آئینی بینچ کے سربراہ نے کہا 10 نومبر کو بینچ کی دستیابی پر مقدمہ مقرر کیا جائے گا۔ بعد ازاں سماعت 10 نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔