اسٹریٹ کرائم کا جن بے قابو

March 08, 2020

صوبائی حکومت اور آئی جی سندھ کلیم امام کے مابین جاری سرد جنگ بآلاخر آئی جی کے تبادلے کے بعد منطقی انجام کو پہنچ گئی۔ تاہم شہری حلقے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اسی عرصے کے دوران پنجاب کے پانچ آئی جیز تبدیل ہو چکے ہیں، لیکن نہ تو وفاق اور صو بے کے درمیان کوئی تنازعہ کھڑا ہوا اور نہ ہی لفظوں کی گولہ باری۔ سندھ واحد صوبہ ہے جہاں آئی جی کی تبدیلی انا کا مسئلہ بن جا تی ہے ، باہمی اختلافات کا نہ ختم ہو نے والا سلسلہ بھی جنم لیتا ہے ۔ خاص طور پر گزشتہ ایک دہائی سے صوبہ سندھ میں’’ ٹاپ‘‘ پولیس افسر کی تعیناتی ایک تماشہ بنی ہوئی ہے ۔

سابق آئی جی، کلیم امام

سابق آئی جی سندھ کے حوالے سے عمومی را ئے یہ تھی کہ وہ اصول پرست، ایماندار، میرٹ پر سمجھوتہ اور دباؤ قبول نہ کر نےوا لے افسر ہیں ۔ شاید یہی وہ عوامل تھے جن کی پاداش میں انہیں اس عہدے کو خیر بادکہنا پڑا۔ دوسری جانب بعض ذرائع تو یہاں تک کہتے ہیں کہ نہ جانے کس کے ایماء پرکلیم امام کی جانب سے وزیر ا علی سندھ کے احکامات کو ہوا میں اڑا دینا معمول بن گیا تھا ۔ ان کی عدم شرکت کے باعث پبلک سیفٹی کمیشن کے اہم اجلاس بھی ملتوی کئے گئے۔اس طرزعمل سے وہ سرکاری افسر کم اورسیاست داں زیاہ نطر آتے تھے ، اور شاید سرد جنگ کاباعث بھی یہی بات بنی۔آخر کاروفاقی حکومت نے سندھ کی جانب سے بھیجے گئے ناموں میں سے پولیس سروس پاکستان کے سینئرافسر مشتاق مہرکی بطور آئی جی تعیناتی کر دی ۔

نئے آئی جی، مشتاق مہر

پو لیس سروس آف پاکستان گریڈ 22 کے سینئر افسر مشتاق مہر نے پیر 2مارچ کو سندھ پولیس کے 60 ویں انسپکٹر جنرل کاعہدہ سنبھالا۔ وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ سے ملاقات کے بعد وہ سینٹرل پولیس آفس پہنچے تو نئے آئی جی سندھ کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا ۔ مشتاق مہرجو ستارہ امتیازکے حامل افسرہیں، اس سےقبل انسپکٹر جنرل ریلوے کے عہدے پر تعینات تھے،۔وہ ایس ایس پی، سی ٹی ڈی اور پھر ڈی آئی جی کے عہدے پر بھی فائز رہے۔انہوں نے کئی ہائی پروفائل کیسزحل کیے ۔ وہ کراچی پولیس چیف کے عہدے پربھی تعینات رہے ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ نئے آئی جی سندھ کی حیثیت سے ان کی تعیناتی کے پہلے روز ہی جرائم پیشہ افراد نے متعدد وارداتیں کر کے انہیںسلامی پیش کی۔

شہر کے مختلف علاقوں میں سرگرم ڈاکوئوں نے مختلف علاقوں میں ڈکیتی،لوٹ مار اور چھینا جھپٹی کا بازار گرم رکھا۔ٹیپو سلطان کےعلاقے میں اسٹریٹ کرمنلز نے بندوق کے زور پر شہریوں کو لاکھوں روپے اور موبائل فونز سے محروم کر دیا ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ لوٹ مار کی ہوش ربا وارداتوں کی وجہ سے شہری خوف وہراس کا شکار ہیں جب کہ پولیس خاموش تماشا ئی بنی ہوئی ہے۔ بلاک 4 عفا مسجد کے قریب4 ڈاکوؤں نے گھر میں گھس کر 7 لاکھ روپے نقد،7 آئی فون، ہیرے کی انگوٹھی اور دیگر سامان لوٹ لیا اور بآسانی فرارہو گئے ۔ میٹروول شبیر اسپتال کے سامنے واقع اسٹیٹ ایجنسی پر 4 مسلح ملزمان نے دھاوا بولا۔ اس واردات میں موٹرسائیکل سوارملزمان5لاکھ روپے سے زائد کیش لوٹ کر فرار ہو ئے ۔ شاہ فیصل ٹاؤن ناتھاخان گوٹھ میں مسلح ملزمان نے گھر میں گھس کر اسلحہ کے زور پر2 لاکھ روپے اور دیگر سامان لوٹ لیا۔

محمود آباد نمبر 6 ستارہ بیکری کے قریب2 مسلح ملزمان شہری سے ایک لاکھ 85 ہزار روپے لوٹ کر بآسانی فرار ہوگئے ۔عزیز آباد میں مسلح موٹر سائیکل سوار 2 ملزمان دن دھاڑے برقعہ پوش خاتون سے پرس چھین کر موقع سے بآسانی فرار بھی ہو گئے ۔ اس واردات کی سی سی ٹی وی فوٹیج وائرل ہو گئی ،جس میں خاتون نے ملزمان کو دیکھ کر بھاگنے کی کوشش بھی کی تھی۔،فو ٹیج میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ چھینا جھپٹی کے دوران خاتون نے سخت مزاحمت کی لیکن ملزم نے خاتون کا ایک ہاتھ پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے پرس چھین لیا ۔ اس فوٹیج میں ملزمان کے چہرے واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں ۔ زمان ٹاؤن تھانے کی حدود کورنگی مریم آباد میں’’ نامعلوم پولیس اہلکار‘‘ موٹر سائیکل اور طلائی زیورات لوٹ کر فرار ہو گئے۔

متاثرہ خاتون رضیہ نے تھانہ زمان ٹائو ن میں درخواست دی ہے مگر اس کے باوجود ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوسکی۔ متاثرہ خاتون نے بتایا کہ 4 روز قبل رات کو وردی اور سادہ لباس پولیس اہلکار گھرمیں گھس آئے اورگھر میں موجود موٹرسائیکل،طلائی زیورات اور چالیس ہزار روپے نقدرقم لوٹ لی۔ مزاحمت کرنے پر بد تمیزی کی اور بازو مروڑ دیا۔ انہوں نے کہا کہ وا قعہ کے اہل محلہ گواہ ہیں، زمان ٹاو ن تھا نے میں درخواست دی ہے مگر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ متاثرہ خاتون رضیہ نے وزیر اعلیٰ سندھ، آئی جی سندھ اوردیگر اعلیٰ حکام سے اپیل کی ہے کہ ہمیں انصاف فراہم کیا جائے۔ تادم تحریر ناظم آباد نمبر2چاؤلہ مارکیٹ کے قریب موٹرسائیکل سوار2مسلح ملزمان نے 30سالہ اسداللہ ولد ذوالفقار کو ڈکیتی کے دوران مزاحمت کرنے پر فائرنگ کرکے قتل کردیا اور فرار ہوگئے ۔

اسٹریٹ کرائمز اور جرائم کی دن بدن بڑھتی ہوئی وارداتیں نئے آئی جی سندھ مشتاق مہر کیلئے بھی ایک بڑا چیلنج ثابت ہوں گی ۔ آئی جی سندھ کو جنگی بنیادوں اقدامات کے ذریعے پولیس کو سیاست سے پاک، محکمے میں موجود کالی بھیڑوں سےصاف ،ایماندار اور اہل افسران کی تعیناتی جیسے انقلابی اقدامات کر کے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ موجودہ حالات میں صوبہ سندھ کو ایسے ہی آئی جی کی ضرورت ہے ۔ عوام کی اکثریت بھی اب صرف روایتی دعوئوں پر یقین نہیں کرتی بلکہ کارکردگی کو جرائم کی شرح سے موازنہ کرکے جا نچتی ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ نئے آئی جی سندھ مشتاق مہر بھی کامیابی کے ساتھ جرائم کے پس پردہ موجودقوتوں کا قلع قمع کرکے جرائم پیشہ افراد سے شہریوں کو تحفظ فراہم کر یں گے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ نیک نیتی سےاقدامات کئے جائیں ، خاص طور پر ایسے واقعات کا سراغ لگا کر ملزمان کو نشان عبرت بنایا جائے جس میں روایتی طور پر پولیس کے اپنے اہلکارملوث ہیں۔ انہیں تفتیش کے طریقہ کارکو جدید طریقہ پر استوار کرتے ہوئے سراغ رسانی کے شعبے کو بھی مضبوط بنانا ہوگا۔ وزیر اعلیٰ سندھ جنہوںنے سابق آئی جی کلیم امام کی جگہ نئے ٹاپ افسر کی تعیناتی کیلئے وفاق سے طویل مباحثہ کیا تھا،انہیں بھی اب جرائم کے خاتمے کیلئے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔

سوشل میڈیا پر شہریوں کے ریمارکس کی روشنی میں انہیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ صرف نئے آئی جی کی تعیناتی سے صوبہ میں جرائم کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی میں محکمہ پولیس میں سیاسی بنیادوں پر ہونے والی بھرتیاں اور ارکان اسمبلی کی سفارش پر اعلیٰ افسران کی تعیناتی و تقرریاں بھی جرائم کی شرح میں اضافہ کا سبب ہیں۔ وزیرا علیٰ کو سابق آئی جی کی جانب سے بعض سیاست دانوں اور اعلی پولیس افسران پر عائد کئے گئے الزامات کو ان کے خلاف کی گئی تحقیقات کی روشنی میں سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا ۔ اگر اب بھی موثر اور سنجیدہ اقدامات نہیں کئے گئے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ اگلے چند ماہ میں پھر کسی نئے آئی جی کی تعیناتی کے لئے وفاق اور صوبائی حکومت آمنے سامنے کھڑی ہوں ۔