کورونا اور سیاسی قیادت

March 25, 2020

کورونا وائرس نے دنیا کے ایک ارب انسانوں کو گھروں میں محصور کر دیا ہے، کاروبار، صنعتیں، سیاحت، مذہبی مقامات سب بند ہو چکے ہیں، بغیر ویزے کے ایک دوسرے ممالک میں گھومنے پھرنے والوں نے اپنی سرحدوں پہ نو انٹری کے بورڈز لگا دئیے ہیں۔

کھانے پینے کی اشیا کے ناپید ہونے کے خطرے کے پیش نظر خود کو مہذب قرار دینے والے ایک دوسرے کے ہاتھوں سے ٹشوپیپرز تک چھیننے لگے ہیں۔ اب تک دنیا کے 35ممالک نے لاک ڈائون کر دیا ہے جبکہ کورونا سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد چودہ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔

پاکستان میں بھی کورونا کی وبا پھیلنا شروع ہو چکی ہے ۔ پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 26فروری کو کراچی میں سامنے آیا، یہ وائرس ایران سے سفر کرکے پاکستان آنے والے شخص میں پایا گیا جس کے بعد پاکستان میں خطرے کی گھنٹی بج گئی۔

امریکہ اور یورپی ممالک بالخصوص اٹلی میں روزانہ سینکڑوں کے حساب سے بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے تناظر میں موجودہ حالات میں معمولی سی غفلت اس وبا کو پاکستان میں بھی خدانخواستہ بے قابو کر سکتی ہے چنانچہ وقت کا تقاضا ہے کہ کورونا کے خلاف جنگ میں تمام تر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے متحد ہو کر اقدامات کئے جائیں تاہم افسوس کا مقام ہے کہ اس ناگہانی صورتحال میں بھی سیاسی قیادت کی اکثریت اس بلوغت اور احساس ذمہ داری سے محروم نظر آتی ہے۔

جیسے ہی کیسز سامنے آنا شروع ہوئے حکومت کی طرف سے کئی دنوں تک ’میں نہ مانوں‘ کا رویہ اختیار کیا گیا یہاں تک کہ پنجاب میں کورونا سے متاثرہ پہلا مریض جاں بحق ہوگیا۔ دوسری طرف وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کورونا کے پھیلائو کو روکنے کے لیے انتہائی سرعت سے بغیر وقت ضائع کیے وہ تمام اقدامات اٹھائے جو وقت کا تقاضا تھے اور یوں ان کے اس فعال کردار کا اعتراف ان کے سیاسی مخالفین بھی کرنے پہ مجبور ہو گئے۔ انہوں نےفوری طور پہ قرنطینہ سنٹرز قائم کیے۔

طبی عملے کی تربیت کا انتظام کیا، لوگوں میں آگاہی پیداکرنے کے لیے تمام مطلوبہ ذرائع استعمال کیے، غریبوں اور مزدوروں کے لئےحتی المقدور راشن کے انتظامات کیے، بین الصوبائی ٹرانسپورٹ پہ پابندی عائد کی اور 15 دن کے لیے کئیر فار یو کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے صوبے بھر میں لاک ڈائون کر دیا۔

گلگت بلتستان کی حکومت نے بھی سندھ کی پیروی میں لاک ڈائون کا اعلان کیا اس کے برعکس وسیم اکرم پلس کا رویہ سب کے سامنے ہے۔ انہی کی کابینہ کی رکن اور شعبہ صحت کی انچارج وزیر نے کورونا بارے صحافی کے سوال پوچھنے پہ دھمکی آمیز رویہ اختیار کر کے صوبائی حکومت کی قوت برداشت کی قلعی بھی کھول دی۔

پنجاب میں متاثرہ مریضوں کے لیے انتظامات کا اندازہ قرنطینہ سنٹرز کی ناگفتہ بہ صورتحال اور اسپتالوں میں ڈاکٹرز کو مطلوبہ حفاظتی سامان فراہم نہ کرنے پہ ان کے احتجاج سے لگایا جا سکتا ہے۔

چین سے عطیہ کی گئی ٹیسٹ کٹس کی صرف شوکت خانم اسپتال میں فراہمی اور عوام کو مہنگے داموں کورونا ٹیسٹ کی سہولت فراہم کرنے نے جہاں حکومتی کردار کو متنازع بنا دیا وہیں عالمی اداروں کی طرف سے وباسے نمٹنے کے لیے دی گئی امداد کے شفاف استعمال پہ بھی سوالات کھڑے دئیے۔ وفاق کی سطح پہ وزیراعظم عمران خان وزارت صحت کے خود وزیر ہیں جبکہ ڈاکٹر ظفر مرزا معاون خصوصی ہیں۔

اگرچہ معاون خصوصی غیر منتخب ہیں تاہم کورونا کے معاملے میں ان کی کارکردگی کافی بہتر ہے۔وزیر اعظم عمران خان کو مشکل کی اس گھڑی میں اپوزیشن رہنمائوں کے ساتھ مشاورت کرنے یا ان کو ساتھ ملا کر چلنے کے ذریعے اتحاد اور یگانگت کا جو پیغام دینا چاہئے تھا وہ نظر نہیں آیا بلکہ اپنے پہلے خطاب میں انہوں نے سندھ حکومت کے کردار کا اعتراف نہ کر کے بخل سے کام لیا۔

دیگر حکومتی اقدامات بالخصوص لاک ڈائون کرنے سے متعلق فیصلوں بارے بھی وزیر اعظم نے اپوزیشن رہنمائوں تو درکنار واحد مخالف صوبائی حکومت کو بھی اعتماد میں لینا گوارا نہیں کیا۔

رہی بات اپوزیشن کی تو اس نے کورونا کے باعث پہلے قومی اسمبلی اجلاس ملتوی کرنے پہ اتفاق کیا اور بعد میں جب ملک بھر میں لوگوں کو سماجی فاصلے رکھنےکی تلقین کی جا رہی ہے قومی اسمبلی اجلاس طلب کرنے کے لیے ریکوزیشن جمع کرا کے سیاسی بصیرت کو مشکوک بنا دیا اس دوران حکومت نےقومی اسمبلی اجلاس طلب کر کے روایتی تقاریر کرانے کی بجائے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا صائب فیصلہ کیا۔

سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن نے مشکل کی اس گھڑی میں بھی حکومت پہ مسلسل تنقید کے ذریعے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ جاری رکھی تاہم بلاول بھٹو نے وزیراعظم پہ تنقید نہ کرنے اور متحد ہوکر کورونا کا مقابلہ کرنے کا پیغام دے کر پختہ سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا ہے۔

دوسری طرف شہباز شریف نے بھی وطن واپسی کے فوری بعد اتفاق سمیت شریف خاندان کے دیگر اسپتالوں کو قرنطینہ سنٹرز کے لئےحکومت کو دینے کی پیشکش اور کورونا کی مانیٹرنگ وبچائو کےاقدامات تجویز کرنے کے لیے دو کمیٹیاں قائم کر کے ذمہ دار کردار کا بھی ثبوت دیا ہے۔

وزیراعظم کے سب سے بڑے نقاد مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے چالیس ہزار رضاکاران حکومت کا ہاتھ بٹانے کے لیے فراہم کرنے کی پیشکش کرکے سیاسی بلوغت کو ثابت کیا جبکہ جماعت اسلامی نے عوام کی مدد کے لئے عملی اقدامات کے ذریعے ایک بار پھر اپنی تنظیمی صلاحیت ثابت کی ہے۔

موجودہ حالات میں جب وزیراعظم پہ چین کی مثال دے کر ملک بھر میں لاک ڈائون کرنے کا سخت دبائو ہے وہیں اس مطالبے کے حامیوں کو ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے جبکہ ہماری معیشت میں اتنی سکت نہیں کہ یہ دو سے تین ہفتے مکمل لاک ڈائون کا بوجھ سہار سکے۔

جبکہ اب پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی صورت میں ایسا موثر پلیٹ فارم دستیاب ہے اس لئے ملک بھر میں لاک ڈائون کرنے سمیت تمام اہم فیصلے باہمی مشاورت اور اتفاق رائے سے اس کمیٹی کے ذریعے کیے جائیں تاکہ ملک بھر میں یکساں پالیسی کا اطلاق ہو سکے۔