موبائل پر لیڈیز ایپس کے ذریعے ڈاکو سرگرم

May 03, 2020

سندھ میں طویل عرصہ تک نسوانی آواز کے ذریعے موبائل پر لیڈیز ایپس کا استعمال کرکے اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کا سلسلہ کچھ عرصے خاموشی کے بعددوبارہشروع ہوگیا ہے اور پولیس ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود اغوہونے والے شہریوں کو اب تک بازیاب نہیں کراسکی۔جس کی وجہ سے مغویوں کے اہل خانہ شدت غم سے نڈھال اور بے یارومددگار ہیں۔، دور جدید میں کچے کےعلاقے میں رہنے والے ڈاکوموبائل ٹیکنالوجی کی جدت کا فائدہ اٹھا کر ایسا جال بچھاتے ہیں کہ شکارخود شکاری کے جال میں پھنس جاتا ہے۔پولیس کے مطابق ڈہرکی کے نواحی علاقے بھرچونڈی شریف کے پندرہ سالہ نوجوان محمد علی جونو عرف بابل اور بیس سالہ شاہنواز بھٹو جبکہ گھوٹکی کے گاوّں شہزادو مہر کے دو افراد الطاف مہر اور امان اللہ مہر سمیت چار افراد گذشتہ تین ماہ سے شکار پور کے کچے کے علاقے تیغانی اورجاگیرانی کے پاس یرغمال ہیں اور مغویوں کی رہائی کے لئے لاکھوں روپے تاوان طلب کیا جارہا ہے۔ان کے اہل خانہ میںی اتنی سکت نہیں ہے جواس قدر بھاری تاوان کی ادائیگی کر کے انکی زندگیاں بچا کر انہیں بازیاب کراسکیں۔پولیس تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ اغوا سے قبل مغویوں کے ساتھ موبائل فون پر لمبی کالوں کے ذریعے نسوانی آواز بنا کر پیار محبت کی باتیں اور امیر لڑکی سے شادی کا جھانسا دے کر مخصوص مقام پر بلا کرانہیں اغوا کرنے کے بعد یرغمال بنالیا گیا۔

ڈاکوؤں کے چنگل سے رہائی پانے والے نوجوان

پولیس کے ایک اعلی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ کشمور اور کچے کے علاقے میں سندھ کے دیگر علاقوں سے چالیس سے زائدافراد کو اغوا کر کے یرغمال بنایا ہوا ہے اور وہ علاقہ دریا ئے سندھ کے اندرایک جزیرے میںنو گو ایریا ہے۔ ڈاکووّں کے پاس بڑی مقدار میں جدید اور بھاری اسلحہ ہے۔ ان کے خلاف پولیس کی کارروائیاںکسی صورت بھی کامیاب ہونا ممکن نہیں۔ یہاں پر رینجرز اور پاک آرمی کا آپریشن اور مغویوں کی بحفاظت رہائی نا گذیر ہے ۔ کشمور اور شکارپور کے کچے کے ڈاکووّں کی دیکھا دیکھی گھوٹکی کے کچے کے علاقے میں بھی ڈاکووّں کے گروہ سر اٹھانے لگے ہیں کیونکہ رحیم یارخان ،راجن پور اور گھوٹکی کے سرحدی علاقے میں چھوٹوبکھرانی گینگ کے خاتمے کے بعد کچے کا واحد نو گو ایریا ختم ہوگیا تھا تاہم کشمور اور شکار پور میں نو گو ایریا میں اضا فہ ہوگیا ہے۔ ڈی ایس پی گھوٹکی حافظ عبدالقادر چاچڑنے بتایا ہے کہ ایک نوجوان دوکاندارفضل الرحمان چاچڑ کو مسلح ڈاکوئوں نے اسلحہ کے زور یکم جنوری2020کو گائوں مانک کی دوکان سے اغوا کرلیا تھا۔اسے گذشتہ روزکاٹھ پل کے قریب پولیس نے مقابلے کے بعد بازیاب کرا لیا ہے مغوی کی رہائی کے لئے اغوا کاروں نے پہلے پچاس لاکھ اور بعد میں دس لاکھ روپے تاوان طلب کیا تھا ۔

اہل خانہ کی جانب سے عدم ادائیگی پر مغوی کو ڈاکوؤں کے دوسرے گروہ کو فروخت کرنے کے لئے رات کی تاریکی میں دوسری جگہ منتقل کیا لیجایا جارہا تھا کہ پولیس نے اطلاع ملنے پر ناکہ بندی کر کے نصف گھنٹہ فائرنگ کے تبادلے کے بعدمغوی کوبازیاب کرالیا ۔ ڈاکو رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کرفرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ۔ ڈی ایس پی نے بتایا کہ اغوا برائے تاوان کی یہ واردات بدنام زمانہ جھرکی تیغانی گروہ نے کی تھی ۔ پولیس نے مقدمہ درج کرلیا ہے اس دوران بازیاب ہونے والے نوجوان فضل الرحمان چاچڑ نے بتایا کہ ڈاکو انہیں قید کے دوران تشدد کا نشانہ بناتے تھے ۔ پیاز کے ساتھ سوکھی روٹی دیتے تھے اور گہرے گڑھے میں باندھ کر رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ ورثاء نے تاوان نہ دیا تو وہ انہیں قتل کر دیں گے یا کسی دوسرے گروہ کوفروخت کر دیں گے۔

اغوا برائے تاوان کی بڑھتی ہوئی وارداتوں اورکشمور ،شکارپور کے نو گو ایریاز میں اغوا برائے تاوان کیوارداتوں میں اغوا ہونے والے مغویوں کوپولیس ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود بازیاب نہیں کراسکی۔یااس صورت حال سے ضلع میں کاروباری زندگی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں با لخصوص گڈو، کشمور میں کاروبار کرنے والے تاجر و صنعتکار اور گڈو تھرمل میں اوباڑو و دیگر علاقوں سے ملازمت کے لیے جانے والے ملازمین خود کو غیر محفوظ تصور کرکے ہو کر گھروں میں محصور ہو گئے ہیں ۔

کاروباری شخصیات اور صنعتکاروں کا کہنا ہے کہ اگر کچے کے جنگلات سے ڈاکوؤں کا قلع قمع نہیں کیا گیا تو سندھ کے عوام معاشی بحران سے دوچار ہوجائیں گے۔ دوسری جانب مغویوں کے اہل خانہ گذشتہ تین ماہ سے سخت ذہنی اذیت و کرب کا شکار ہیں اور اپنے پیاروں کی ڈاکوؤں کے چنگل سے رہائی کے منتظر ہیں۔ ڈہرکی اور گھوٹکی کے مغویوں کے ورثاء نے وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ آئی جی سندھ ، اور ڈی جی رینجرز سے مطالبہ کیا ہے مغوی افراد کو ڈاکوؤں کے چنگل سے آزاد کرایا جائے ۔