میری ذمہ داری

May 16, 2020

ماریا محمود

علمی، اخلاقی اور سماجی خدمت ایسی توقعات ہیں، جو ہم نوجوانوں سے کی جاتی ہیں۔ درحقیقت یہ آج کی بات نہیں، یہ سفر تو برسوں پر محیط ہے۔ ہم نوجوانوں نے ہی قوموں کی کایہ پلٹی ہے، ہر دور کے فلاسفر ہمارے لیے ہی رہنمائی فراہم کر کے گزرے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا نوجوان زیادہ مستعد، چابک دست اور دُور اندیش ہے۔آج کے نوجوان نے کبھی اپنی ذمّے داریوں سے کوتاہ نظری نہیں کی۔ درست سمت کا متقاضی یہ نوجوان اقبال کی ’’زرخیز مٹی‘‘ ہی تو ہے۔ بس اسے نم کرنے والے ہاتھوں کی ضرورت ہے۔

ہمارا آج کا نوجوان اپنی معاشرتی ذمّے داریوں کے حوالے سے بے حد حساس ہے۔ معاشرہ یعنی اس فضا میں جس میں ہمارا نوجوان سانس لے رہا ہے، اگر اس معاشرے میں تفریق و امتیاز کا سامنا کرنا پڑے تو یہ نوجوان آزردہ اور رنجیدہ ہوجاتا ہے، اگر اسے گھر میں امتیاز کا سامنا ہو تو وہ کبیدہ خاطر ہوجاتا ہے۔ اگر اسکول اور کلاس کے اندر اسے تفریق و امتیاز دکھائی دے تو اسے دلی تکلیف پہنچتی ہے۔ بعض افراد ایسے بھی ہوتے ہیں، جو سماجی برائیوں اور آفتوں کے حوالے سے بے حسی کا شکار ہو جاتے ہیں یا اپنی ذاتی زندگی اور امور میں مستغرق ہوجاتے ہیں یا پھر حالات کے عادی ہوجاتے ہیں، لیکن نوجوان ایسا نہیں ہے۔

نوجوانوں میں جذباتیت ہوتی ہے، اگر معاشرے میں انصاف و مساوات نہ ہو اور تفریق و امتیاز ہو تو نوجوان دکھی ہوتا ہے، مایوس ہوتا ہے۔ اگر معاشرے میں بدعنوانیاں پھیل جائیں تو وہ نوجوان جو اپنے ملک کے وقار کا متمنی ہے، یقیناً آزردہ خاطر ہوگا، لیکن اگر کہیں ملّی جوش و جذبے کا معاملہ ہو تو وہاں نوجوانوں کی فرض شناسی قابلِ دید ہوتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں جہاں ملک کے دفاع کا مسئلہ ہو یا قومی حمیت کا معاملہ اور ملک کے عزت و وقار، آزادی و خود مختاری کی بات آتی ہے تو ہم نوجوان بے لوثی اور بے غرضی کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔

یہ وہ جوان ہوتے ہیں، جنہیں اپنی زندگی اور اپنے چین و سکون کی ذرا بھی پروا نہیں ہوتی اور وہ بے خطر ملک کی سلامتی کے لیے انگار وادی میں بھی کود پڑتے ہیں۔ معاشرے کا ہر نوجوان اپنے اپنے شعبے میں مکمل ذمّے داری کا ثبوت دے رہا ہے، اگر اسے کہیں دشواریاں درپیش ہوتی ہیں تو وہ اپنے بڑوں اور اپنے رہنمائوں کی جانب دیکھتا ہے کہ مجھے کوئی تو سمت دو کہ میں بھی ملّی جذبے سے سرشار ہوں۔

ملک، معاشرے اور گھر کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ تو ایسی صورت میں نوجوان کو چاہیے کہ خود فیصلہ کرے، اپنی اپنی زمین پر اپنی پسند کا بیج بوئے۔ اپنی ثقافتی و اخلاقی دولت اور جمع پونجی سے استفادہ کرے، اپنے ارادے کو بروئے کار لائے، اپنی شخصیت اور اپنی خودمختاری کو اہمیت دے، دوسروں کی تقلید اور اغیار کو ہرگز آئیڈیل نہ بنائے اور سماجی، معاشی اور اخلاقی ذمّے داریوں کو خوش اسلوبی سے انجام دے۔