’شکریہ‘ اس چھوٹے سے لفظ سے پیار، محبت اور خلوص کے رشتوں کی کڑی کو باندہ لیں

May 29, 2020

بینا صدیقی

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ’’شکریہ‘‘ کا لفظ کتنا چھوٹا مگر، دل کو بڑا کردینے والا ہے، جب کوئی آپ کے لیے کچھ کرتا ہے، کوئی تحفہ خرید کر لاتا ہے، آپ کو کسی دور دراز جگہ بیٹھ کر یاد کرتا ہے، فون کرتا ہے، ای میل لکھتا ہے تو اس بات کی کتنی اہمیت ہوتی ہے،لیکن کچھ خواتین ایسی ہیں کہ یہ چھوٹا سا لفظ ان سے ادا نہیں ہوتا ، کوئی ان کے لیے بڑا تحفہ لائے یا چھوٹا، اپنا وقت دے یا پیسہ،انہیں احساس ہی نہیں ہوتاکہ دوسرے نےاُن کے لیے کیا کِیا ہے۔جانے یہ احسان فراموشی ہے کہ کیا؟ کسی دوست یا کزن کے گھر جاتے ہوئے اس کے بچوں کےلیے ٹافیاں، کھلونے وغیرہ لے کر جائیں اور ایک بار نہ لےکر جائیں،پھردیکھیںلانے کا شکریہ نہیں، نہ لانے پر طنزیہ جملے سننے کو ملیں گے۔

ایک دن میری آپا کی دوست اپنےبچےکویہ کہہ کرہمارے گھر چھوڑگئیں کہ کسی کے گھر تعزیت پرجانا ہے۔ ہم نے اس خاصے بدتمیز بچے کی خاطر تواضع میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ گھر کی ٹوٹنے والی چیزوں پر فاتحہ پڑھنی پڑی،مگر محترمہ واپسی پر بچے کی انگلی پکڑ کے یوں چلتی بنیں، جیسے بچے کی دیکھ بھال کرناہمارا فرض تھااورپھر اگلے دن فون پرکہا کہ ’’جب سے تمہارے گھر سے بچےکو لےکرآئی ہوں،وہ مسلسل کھانس رہا ہے، ٹھنڈا برف کا پانی پلادیا تھا کیا؟‘‘ یعنی اگر کسی نے آپ کا کوئی کام کردیا ہے تو دوسرے سے کسی لفظ کی توقع اس وقت تک نہ رکھیں جب تک اس کام میں کوئی خرابی نہ نکل آئے۔ پھر دیکھیے دل کھول کر زبان کھولیں گے۔

شکریہ، مہربانی، نوازش کے الفاظ تقریباً سب ہی نے اپنی لغت سے کاٹ دیئےہیں،اگر کسی نے کسی کی مدد کی تو اس میں اس کی اپنی کوئی غرض ہوگی۔ یا اسے ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔ کوئی تحفہ لےکر آئے تو اس کے پاس فالتو پیسے بہت آگئے ہوں گے یا کبھی کسی نےدیاہوگا،ان کے کسی کام کا نہ ہوگا تو ہمیں دے دیا،کس بات کا شکریہ ادا کریں، کوئی ہم نے کہا تھا تحفہ لانے کو؟

کوئی اگر ہمارے کام آگیا تو بھلا کیا بڑی بات ہوئی کہ شکریہ کہتے زبان سکھائیں؟ اس کی اپنی کوئی غرض ہوگی یا ہم سے اس سے بھی بڑا کوئی کام لینے کا ارادہ ہوگا، شکر ہے کہ ہم نے شکریہ ادا نہ کیا۔ جھاڑ کا کانٹا ہی بن جاتے ہیں لوگ، ایک کام کرکے چمٹ جاتے ہیں، کوئی کہاں تک احسان کا بوجھ ٹانگے ٹانگے پھرے۔

اگر کسی نے دوسرے ملک سے فون کرکے ہماری خیریت معلوم کی تو یقیناً کال مفت پڑرہی ہوگی، کوئی پیکیج کرایا ہوگا، بھلا شکریہ کیسا؟

شکریہ کے سلسلے میں ایک یہ مفروضہ بھی ہے کہ بھلا اپنوں میں کیسا شکریہ؟ شکریہ تو غیروں میں ادا کیا جاتا ہے، گویا اپنائیت کا مظاہرہ صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ کسی کو اپنا سمجھتے ہوئے اس کا احسان اٹھا کر چلتے بنیں اور شکریہ کا لفظ منہ سے نہ نکالیں۔ حالاں کہ شکریہ کسی تکلف کا حصہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ کسی کے خلوص کا فوری جواب ہوتا ہے، پھر جب کسی اپنے کی غلطی پر یا اس کی بے رخی پر اسے بے نقط باتیں سناسکتے ہیں تو شکریہ بھی کہہ سکتے ہیں، اس میں غیریت اور تکلف کی کوئی بات نہیں۔

کچھ خواتین شکریہ کہنے میں اس لیے بھی کنجوس ہوتی ہیں کہ توقعات کے معاملے میں شاہ خرچ ہوتی ہیں۔ کسی دوسرے سے لمبی چوڑی توقعات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دوسرا ہمارے لیے کچھ بھی کرڈالے، ہمیں معمولی ہی لگتاہے اور شکریہ ادا کرنا بوجھ لگتا ہے، منہ سے نکلتا ہے تو شکوہ کہ بس اتنا سا؟

عجیب بات یہ ہے کہ کسی کو برا بھلا کہنے میں ہم بہت تیز رفتار واقع ہوئے ہیں، لیکن کسی کا شکریہ ادا کرنے سے قبل مکمل چھان بین اور شک و شبہ دور کرنا پسند کرتے ہیں کہ کسی نے ہمارا کوئی کام کرڈالا تو اس کے پیچھے اس کی اپنی کوئی غرض تو پوشیدہ نہ تھی؟ ہم سے خلوص برت کر اپنا الو تو نہیں سیدھا کیا؟ ہمیں جو تحفہ عنایت کیا گیا ہے وہ کہیں سے مفت تو نہ ملا تھا؟ یہ چیز اس کے اپنے لیے فالتو اور بیکار تو نہ تھی جو ہمیں تھما دی؟ لیکن جب ہمارے ساتھ کوئی کچھ برا کرتا ہےتو ہمیں کسی قسم کی تفتیش کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ہم دھواں دھار طریقے سے فی الفور اس پر چڑھ دوڑتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم شکریہ ادا کرنے سے بھی گریزاں ہیں، ساتھ ساتھ ہمارا یہ گلہ بھی اپنی جگہ زوروشور سے جاری رہتا ہے کہ اب تو لوگوں میں مروت ختم ہوگئی ہے، انہیں دوسروں کا خیال ہی نہیں رہتا۔ ہم اس پر غور نہیں کرتے کہ ہم نے شکریے کی روایت ترک کردی ہے، احسان ماننے کا خیال دل سےنکال پھینکا ہے تو بھلا دوسرا کیوں ہماری بدمزاجی اور رکھائی کے باوجود خلوص و محبت کے پھول نچھاور کرتا رہے گا؟

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دوسروں سے توقعات تو وابستہ کرلیتے ہیں، لیکن خود اچھا انسان بننے پر آمادہ نہیں ہوتے، کسی سے تحفہ وصول کیا اور منہ بنانے کے بعد خاموشی سے رکھ دیا، کسی نے ہمارے ساتھ بھلائی کی، ہمارا خیال کیا ہم خاموشی سے بیٹھے رہے، اس کے بعد ہم اگر توقع کریں کہ دوسرا اگلی بار بھی ہمارے ساتھ کوئی اچھائی کرے گا تو یہ ہماری خوش فہمی ہوگی۔بات یہ ہے کہ دوسرا اگر ہمارے ساتھ کچھ اچھا کرتا ہے تو بے شک وہ اپنی اچھائی اور خلوص کی وجہ سے کرتا ہے، اس کا مقصد شکریہ سننا، کسی کو احسان کے بوجھ تلے دبانا نہیں ہوتا، نہ ہمارے لفظ’’ شکریہ‘‘ سے اس کا کوئی فائدہ ہوتا ہے۔ یہ تو ہم پر واجب ہوجاتا ہے، ہم کسی کی بھلائی کا شکریہ ادا کریں لیکن انتہائی معمولی سا لفظ ہم پر اتنا بھاری کیوں پڑجاتا ہے کہ ہم اس کو ادا کرنے سے ہچکچاتے ہیں؟

اس پر جتنا سوچا جائے، محض ایک نتیجہ ہی نکلتا ہے کہ وہ بندہ جو اپنے رب کی ہزار نعمتوں، اس کی مہربانیوں اور نوازشوں میں بھیگتا جاتا ہے اورزبان سے شکر کا ایک لفظ نہیں نکالتا، بلکہ سینہ تان کر کہتا ہے کہ جو کچھ میرے پاس ہے سب میری اپنی محنت اور منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ بھلا وہ اپنے جیسے کسی دوسرے بندے کے کسی معمولی سے احسان کو کیوں ماننے لگا۔ واقعی بے شک انسان ناشکرا ہے۔ وہ ناشکرا انسان رب کا شکر بجالاتا ہے، نہ بندوں کا شکریہ کہتا ہے۔ شکر گزاری کا جذبہ دن بدن ہماری زندگیوں سے کم ہوتا جارہا ہے۔ دل تنگ ہوتے جارہے ہیں، رشتے نازک سے نازک اور وقت کڑے سے کڑا۔

اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے، رشتوں کو پیار محبت خلوص اور ایک چھوٹے سے ’’شکریہ‘‘ کی کڑی سے باندھ لیں۔