کورونا احتیاطی تدابیر کے خلاف مظاہرے

August 07, 2020

تحریر: سیّد اقبال حیدر۔۔فرینکفرٹ


کورونا وائرس ایک ایسی مہلک عالمی وبا ہے جس نے انسانی معاشرے کا سکون غارت کر دیا ہے ستم ظریفی یہ کہ2019 کے آخری ایّام میں چین سے شروع ہونے والی وبا ء نے دیکھتے ہی دیکھتے سرحدیں پامال کرتے ہوئے دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس جدید انقلابی دور میں بھی دنیا کے ترقیاتی ممالک جو سُپر پاور ہونے کا فخریہ دعویٰ کرتے ہیں اس جان لیوا وائرس کا آج تک علاج دریافت نہیں کر سکے۔آئے دن اس کی دوا کے آنے کی خبریں سننے کو ملتے ہیں تاریخ،مہینے کا اعلان میڈیا پر سنایا جاتا ہے مگر آنے والی دوا کتنی کارگر ہوگی،عام غریب آدمی تک اس کی رسائی کب ہوگی یہ سب سوالیہ نشان ہے۔دنیا بھر میں افراتفری کا عالم ہے،امیر ،غریب،چھوٹا، بڑا اس بیماری کے خوف میں مبتلا ہیں۔ مختلف انداز کے مختلف ممالک میں لاک ڈائون چل رہے ہیں ،انسان کی ترقی نے دنیا کوگلوبلائزیشن سے فائدے پہنچائے مگر اس وباء نے گلوبلائزیشن کے منفی اثرات دکھائے۔وباء دیکھتے ہی دیکھتے دنیا میں پھیل گئی۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق تیزی سے پھیلنے والے اس وائرس کو روکنے کا سب سے بہتر علاج ہے کہ انسان خود کو اپنی چاردیواری میں مقید کر لے مگر اس علاج سے دنیا کا معاشی نظام تباہ ہوتا نظر آیا تو حکومتوں کو کورونا کے بندشوں میں نرمی کرنا پڑی اور اس نرمی سے کچھ لوگوں نے ناجائز فائد ہ اٹھایا تو کورونا کی دوسری لہر نے سراٹھا لیا ہے۔کچھ ایسی ہی صورت حال آج جرمنی کی ہے،جرمنی کے مضبوط ہیلتھ سسٹم نے کورونا کا جس طرح مقابلہ کیا قابل تعریف ہے جرمنی نے اٹلی، فرانس اورسپین کے کورونا مریضوں کا جرمنی لا کر علاج کیا اس کے باوجود ہسپتالوں میں کسی بھی آنے والے نئی لہر کے نتیجے میں اضافی،ریزرو ہسپتالوں میں جگہ کو محفوظ رکھا۔ حالیہ ایام میں یورپین ممالک میں ہالینڈ،بلجیم کے ساتھ ساتھ جرمنی میں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں جہاں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے وہاں عوام میں بے چینی کا بھی اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔تازہ اعداو شمار کے مطابق جرمنی مین متاثرین کی اب تک کی تعداد 2,10,665 ان میں سے 1,91,781 خوش قسمت صحت یاب ہوئے اور آج تک9,248 اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔مرنے والی تعداد کے حساب سے جرمنی یورپ کے خوش قسمت ممالک میں سے ایک ہے۔ان اموات کے باوجود جرمنوں کی ایک بڑی تعداد ’’کورناوائرس‘‘ کو مہلک وباء تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔پچھلے کئی ہفتوں سے جرمنی کے بڑے شہروں،بریمن،سٹٹ گارٹ،فرینکفرٹ اور دارلحکومت برلن میں حکومتی احتیاطی ’’بندشوں‘‘ کے خلاف بڑی تعداد میں عوام سڑکوں پر مظاہرے کرتی نظر آئے اور ان مظاہرین میں ڈاکٹر،دانشور،طالبعلم ہر طبقے کے افراد موجود ہیں۔ جرمنی کے دارلحکومت برلن میں ایک بڑا مظاہرہ دیکھنے میں آیا جس میں لگ بھگ 20 ہزارمظاہرین نے شرکت کی۔مظاہرین نے پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دیا ،مظاہرین کورونا کی احتیاطی بندشوں سے آزاد تھے ،ماسک اور درمیانی فاصلے کی کوئی پروا نہیں کی گئی۔میڈیا کے مطابق اس مظاہرے کی قیادت جرمنی کی انتہا پسند سیاسی جماعتوںAFD اور نازی سوچ کی حامل NPD نے کی۔ان کے ساتھ جرمنی کے ہم جنس پرست گروہوں کے ساتھ ساتھ جرمنی میں وبائی مرضوں کے ’’ویکسین‘‘ کا ایک مخالف گروہ بھی سامنے آیا ہے اس مظاہرے میں وہ افراد بھی شریک ہوئے۔ یہ وہی سوچ کے افراد ہیں جو پاکستان میں بھی ’’پولیو‘‘ کے قطرے بچوں کو پلانے کی مخالفت کرتے ہیں،جرمنی میں اس سوچ کا سر ابھارنا جرمن معاشرے کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔پولیس نے اس تازہ مظاہرے کو روکنے کی کوشش میں کئی افراد کو گرفتار کیا اور ان پر مقدمات بھی قائم کئے ہیں۔مظاہرین کے نعرے تھے کہ کورونا کوئی وباء نہیں ہے ،ہم ماسک اور حکومتی احکامات کی پابندی سے انکار کرتے ہیں، حکومت ان پابندیوں کو فوری ختم کرے۔ یاد رہے کہ حکومت کے اعلان کے مطابق ماسک اور درمیانی فاصلے کی پابندی نہ کرنے والے شہریوں کو جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے ،جرمنی کے مختلف شہروں میں صرف فرینکفرٹ میں’’کورونا ‘‘ کے حفاظتی تدابیر کی پابندی نہ کرنے کے جرم میں جولائی کے آخر تک شہری ساڑھے پانچ لاکھ یورو جرمانہ ادا کر چکے ہیں۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل جن کے حصے میں حال ہی میں یورپ کی سربراہی آئی ہے دیکھتے ہیں اپنے ملک میں اپنی عوام پر کس طرح قابو پاتی ہیں۔