جوانوں کو پیروں کا استاد کر

August 15, 2020

صائمہ عبدالقدوس

بیش بہا صلاحیتیں ، انرجی،ولولہ، امید،پر عزم حوصلے، پر جوش ارادے، بے خطر جذبے ان سب کو اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ ہے ’’نوجوان‘‘ ۔ جی ہاں ! جوانی عمر کا وہ حصہ ہے جس میں انسان کی تمام تر صلاحیتیں عروج پر ہوتی ہیں۔نوجوان سوچتا ہے، ارادہ کرتا ہے اور کر گزرتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں بڑے بڑے انقلاب نوجوانوں کی بدولت ہی رونما ہوئے۔یہ عمر کا بہترین حصہ ہوتا ہے۔ ـاسی لیے تو اللہ کو بھی جوانی کی عبادت پسند ہے۔

نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ (NHDR) کی ایک رپورٹ جو 3مئی 2018کو پیش کی گئی ،بتایا گیا کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں سرفہرست ہے جن میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ پاکستان ایشائی ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے ،جس میں کل آبادی کا 64فی صدحصہ 30سال کے افراد پر مشتمل ہے جبکہ 29سے 15سال کے افراد کل آبادی کا 29فی صد ہیں۔جس کا مطلب ہے کہ پاکستانی آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔

کسی ملک میں اتنی بڑی تعداد میں نوجوان ہونے کے باوجود اگر اس کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں نہ ہو تو یہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے۔ جس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ آج کا نوجوان اپنا تشخص کھو بیٹھا ہے۔ان کے پاس صلاحیتیں تو بہت ہیں مگر ان کو بروئے کار لانے کے لیے پلان نہیں۔نوجوان طبقہ کیا سوچتا ہے ان کے جذباتی ،نفسیاتی مسائل کیا ہیںاس جانب کسی کی توجہ نہیں۔

ایک نہر سیلاب کی وجہ سے تباہی مچارہی تھی بستی کے ایک گروہ نے اس کے بہائو کو روکنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکا۔دوسرے گروہ نے یہ کوشش کی کہ جہاں سے پانی آرہا ہے وہاں سے پانی کو بند کردیا جائے یہ کوشش بھی کامیاب نہیں ہوئی۔تیسرے گروہ نے یہ کوشش کی کہ جو پانی آرہا ہے اس کا رخ درست سمت میں پھیر دیا جائے۔

یعنی پانی کا رخ کھیتوں اور قابل زراعت زمین کی طرف کردیا جائےاور اس پانی کو محفوظ کرنے کے لیے تالاب بنا لیا جائے۔یہ کوشش کامیاب ہوئی زمین میں سبزہ آیا اور لوگوں کو پانی کے ذخیرے بھی مل گئے۔ اسی طرح نوجوانوں کے جذبوں اور صلاحیتوں کے سیلاب کو درست سمت دینے کی ضرورت ہے جو پاکستان کے لیے زرخیزی کا باعث بنے۔

نوجوانوں کو اپنا مقام پہچاننے کی ضرورت ہے۔ آج کے نوجوان کی سرگرمیاں مویز دیکھنے ، میوزک سننے ،سیلفیز،آئوٹنگ اور سوشل میڈیا تک محدود ہوگئی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ترجیحات کا درست تعین کیا جائے۔اقبال نے نوجوانوں کو جو شاہین کا خطاب دیا ہے ا س شاہین کی خصوصیات پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کے مسائل حل کرنے اور انہیں بہتر زندگی کی طرف گامزن کرنے کے لیے بہترین مواقع فراہم کیے جائیں۔تعلیم کا مقصد متعین ہونا چاہیے۔

ایمانداری اور دیانت ہی شعار ہونا چاہیے۔اپنی اقدار کی قدرو قیمت سے نوجوانوں کو واقف ہونا چاہیے۔مستقل مزاجی سے اپنی ذمہ داری کو ادا کرنا اور موجودہ چیلنجز کا جوانمردی سے مقابلہ کرنا ہی وہ صفات ہیں جنہیں اپنا کر نوجوان ملک و ملت کی ترقی و بہتری کے لیے اپنا کردار بہتر طور پر ادا کر سکتے ہیں۔