ڈپارٹمنٹل کرکٹ کو ختم کرنے والے نئے نظام کو کس طرح انقلابی بنائیں گے

September 01, 2020

ملک میں اس وقت کلب کرکٹ نہ ہونے کے برابر ہیں۔پیسے والے ماں باپ اپنے بیٹوں کو بڑا کرکٹر بنانے کے لئے مہنگی اکیڈمیز کا سہارا لے رہے ہیں۔ایسے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی اس وقت تمام تر توجہ ڈومیسٹک کرکٹ کے نظام پر ہے ۔کلب کرکٹ کا آئین تو آچکا ہے لیکن اس پر سست روی سے عمل درآمد ہورہا ہے۔ایک ایسی بلند عمارت کھڑی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی بنیادیں تو ابھی بنی نہیں ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ملک میں ٹیلنٹ کی شدید کمی ہے ۔اگر پاکستان ٹیم سے اسد شفیق یا فواد عالم کو ڈراپ کرنے کی بات کی جاتی ہے تو ان کی جگہ کون لے گا اس کا کسی کے پاس جواب نہیں ہے۔

احتساب کے بلند و بالا دعوی ضرور کئے جاتے ہیں لیکن احتساب نام کی کوئی چیز نہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں ہے اور نہ ہی پاکستان کرکٹ ٹیم انتظامیہ سے کوئی جواب طلب کر سکتا ہے۔ہم آسٹریلیا کے بعد انگلینڈ سے سیریز ہار گئے۔آخری دونوں ٹیسٹ میں ہم بارش کی وجہ سے بچ گئے لیکن ٹیم انتظامیہ کے انداز اور پی سی بی کے تعریفی میڈیا ریلیز سے لگتا ہے کہ ہم نے کوئی بڑا معرکہ سر کر لیا ہے۔

حیدر علی کو پاکستان کرکٹ کا مستقبل قرار دیا گیا لیکن اسے ٹی ٹوئینٹی ٹیم کے ساتھ ابھی تک تفریح کرائی جارہی ہے حالانکہ ایک دن پہلے پی سی بی نے حیدر علی کو مستقبل کا اسٹار قرار دیا تھا جس سے لگ رہا تھا کہ وہ ٹی ٹوئینٹی سیریز کھیل جائیں گے۔

فاسٹ بولرسہیل خان اور عمران خان پاکستان ٹیم کے ساتھ کیوں ہیں اس کا جواب مصباح الحق ہی دے سکتے ہیں۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی میں بہتری کااندازہ اسے لگایا جاسکتا ہے کہ ہم نے ہوم گراونڈ پر سری لنکا اور بنگلہ دیش کو شکست دی۔مصباح الحق کے کوچ بننے کے ساتھ ہی پاکستان سری لنکا سے تینوں ٹی ٹوئینٹی ہار گیا جس کا ملبہ سرفراز احمد پر گرا کر اسے تینوں فارمیٹ سے باہر کردیا گیا ہے۔

اب یہ بات یقینی دکھائی دیتی ہے کہ سرفراز احمد شائد مجبوری میں تو کھیل جائیں لیکن مصباح الحق اور ان کے ساتھی سرفراز احمد کو کھلانے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتے،انہیں دودھ میں سے مکھی کی طرح نکالا جارہا ہے۔

بابر اعظم کی ٹیم نے جب انگلینڈ کے خلاف ٹی ٹونٹی سیریز کا آغاز کیاتو اس سے قبل مصباح الحق کی ہیڈ کوچنگ اور چیف سلیکشن میں پاکستان 20ٹی ٹوئینٹی انٹر نیشنل میچز کھیل چکی تھی۔ان بیس میں سے ٹیم نےچھ میچز جیتے، آٹھ میچز ہارے، تین بارش کی نذر ہوئے جبکہ تین میچز ڈرا ہوئے۔انگلینڈ کے خلاف پہلا ٹی ٹوئینٹی بھی بارش کی نذر ہوا تھا۔

پی سی بی کے کوڈ آف ایتھکس کے تحت ایک وقت میں دو عہدوں پر کام کرنا پھر سوئی ناردرن گیس سے بھی تنخواہ لینا مفادات کا تصادم ہے۔حکام یہ دعویٰ کرتے پائے جا رہے ہیں کہ اس انگلش ٹور کے اختتام پہ مصباح الحق سے چیف سیلیکٹر کا عہدہ واپس لیے جانے کا قوی امکان ہے لیکن پی سی بی کا ریکارڈ یہی رہا ہے کہ ہمیشہ وہی لپیٹ میں آتا ہے جس کی گردن پتلی ہوتی ہے۔دنیا بھر میں ہر فارمیٹ میں اسپشلائز کرکٹرز کھیلتے ہیں۔

انگلینڈ نے پاکستان کے خلاف ٹیسٹ سیریز جیتی لیکن ان کی ٹی ٹوئینٹی ٹیم بالکل مختلف ہے ۔ٹیسٹ کے کسی کھلاڑی کو ٹی ٹوئینٹی ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا۔حالانکہ جوز بٹلر ٹیسٹ کی طرح ٹی ٹوئینٹی کے بھی بہتر ین وکٹ کیپر بیٹسمین ہیں لیکن بٹلر کو ٹیسٹ سیریز میں اچھی کارکردگی کے باوجود ٹی ٹوئینٹی میں نہیں کھلایا گیا۔پاکستان کرکٹ ٹیم کے دورہ انگلینڈ میں بلاشبہ وکٹ کیپر بیٹسمین محمد رضوان کی کارکردگی سب سے مثبت رہی ہے لیکن رضوان کو ٹی ٹوئینٹی میں اس لئے کھلایا گیا کہ مصباح الحق ہمیشہ سرفراز احمد کے لئے نرم گوشہ نہیں رکھتے۔رضوان کو تو کراچی کنگز نے پاکستان سپر لیگ میں بھی کھلانے سے گریز کیا تھاجس پر مصباح الحق نے ناراضگی دکھائی تھی۔27ماہ سرفراز احمد کی قیادت میں عالمی نمبر ایک رہنے کے بعد پاکستانی ٹیم کی تنزلی ہوچکی ہے۔

ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کی عالمی رینکنگ میں پاکستان اس وقت چوتھے نمبر پر ہے۔ پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کی صف اول کی ٹیموں میں شمار کیا جاتا ہےپاکستانی کرکٹ ٹیم نے 2016 سے 2019 تک ٹی ٹوئنٹی کی لگاتار گیارہ سیریز جیتی تھیں۔ ان تمام سیریز میں سرفراز احمد کپتان تھے لیکن اس کے بعد آخری پانچ میں سے چار میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔جنوبی افریقا میں شعیب ملک کی کپتانی میں پاکستانی ٹیم تین میچوں کی سیریز دو ایک سے ہاری تھی۔ سرفراز احمد کی کپتانی میں انگلینڈ کے خلاف واحد میچ اور پھر سری لنکا کے خلاف ہوم سیریز کے تینوں میچوں میں شکست کے نتیجے میں سرفراز احمد نہ صرف کپتانی سے محروم ہوئے بلکہ ٹیم سے بھی باہر ہو گئے۔سرفراز احمد کی جگہ کپتان بنائے گئے بابر اعظم کی قیادت میں پاکستانی ٹیم آسٹریلیا میں سیریز دو صفر سے ہاری تاہم بنگلہ دیش کے خلاف ہوم سیریز میں اس نے دو صفر سے کامیابی حاصل کی۔انگلینڈ نے 2018 میں بھارت سیریز دو ایک سے ہارنے کے بعد سے سری لنکا، ویسٹ انڈیز، پاکستان، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقا کے خلاف لگاتار پانچ سیریز جیتی ہیں۔

سرفراز احمد کی کشتی اب طوفان میں ہے ،مصباح الحق کی موجودگی میں ان کی واپسی شائد اسی صورت میں ہو جب رضوان میچ نہ کھیلیں۔اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کو سب سے زیادہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز جیتنے کا اعزاز حاصل ہے۔ پاکستان نے اب تک 151 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیلے ہیں جن میں اس نے 92 میں کامیابی حاصل کی ہے۔کامیابی کے لحاظ سے پاکستان دوسرے نمبر کی ٹیم بھارت سے واضح طور پرآ گے ہے جس نے 134 میں سے 83 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ جیتے ہیں۔انگلینڈ کی اس وقت عالمی رینکنگ دوسری ہے۔ اس نے 117 میں سے 58 میچز جیت رکھے ہیں۔پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کھیلے گئے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں انگلینڈ کا پلڑا بھاری رہا ہے۔ دونوں کے درمیان اس سیریز سے قبل کھیلے گئے 15 میں سے 10 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل انگلینڈ نے جیتے تھے۔ پاکستان صرف 4 میچ جیتنے میں کامیاب ہو سکا جبکہ ایک میچ ٹائی ہوا۔

اگر انگلینڈ نے پاکستان کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سریز میں کلین سویپ کر لیا تو وہ آئی سی سی کی درجہ بندی میں اگرچہ دوسرے نمبر پر ہی رہے گا لیکن اس کے اور عالمی نمبر ایک آسٹریلیا کے درمیان صرف چار پوائنٹس کا فرق رہ جائے گا۔ دو میچ جیتنے کی صورت میں یہ فرق آٹھ پوائنٹس کا ہو گا۔پاکستان کی تین صفر کی شکست اسے عالمی رینکنگ میں پانچویں نمبر پر لے جائے گی۔اگر پاکستان یہ سیریز تین صفر سے جیت لیتا تب وہ دوسرے نمبر پر آ جائے گا اور انگلینڈ کی پوزیشن چوتھی ہو جائے گی لیکن اگر پاکستان یہ سیریز دو ایک سے جیتا تو پھر اس کی پوزیشن چوتھی ہی رہے گی لیکن انگلینڈ کی رینکنگ دوسرے نمبر سے تیسرے نمبر پر آ جائے گی۔

پہلا میچ بارش کی نذر ہونے سے اب سیریز میں کوئی ٹیم نہ تینوں میچ جیت سکے گی اور نہ تینوں ہار سکے گی آج رات سیریز کا فیصلہ آخری میچ سے ہوجائے گا۔ اپنے یوٹیوب چینل اور ٹیلی وژن پروگراموں پر پی سی بی اور پاکستان ٹیم کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے سابق کرکٹرز نے کوچز حیثیت سے پی سی بی کی ملازمت کرلی لیکن اب وہ نہ اپنے یو ٹیوب چینل چلاسکیں گے اور نہ پی سی بی کی پیشگی اجازت کے بغیر ٹی وی پروگرام کرسکیں گے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ اب بھی ناردرن کے ہیڈ کوچ اور قومی سلیکٹر محمد وسیم سرکاری ٹی وی پر پروگرام کررہے ہیں اور سلیکشن معاملات پر کھلے عام بات کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔پی سی بی کے ایک ذمے دار نے بتایا کہ اس بارے میں سابق کھلاڑیوں کو واضع گائیڈ لائن دے دی گئی ہے۔سابق کرکٹرز محمد یوسف،باسط علی،فیصل اقبال،عتیق الزماں یو ٹیوب چینل پر متحرک تھے جبکہ عبدالرزاق ،اور غلام علی ٹی وی پروگراموں میں اپنے تبصروں میں ہارڈ لائن رکھتے تھے۔

پی سی بی نے تمام کوچز کو لاہور بلاکر انہیں میڈیا سے دور رہنے کی پالیسی بتادی ہے۔تقرریوں کے وقت کئی کھلاڑیوں کے ماضی میں خراب ڈسپلن کو بھی اہمیت نہیں دی گئی۔حیران کن طور پرچیمپین ٹیم سینٹرل پنجاب کے ہیڈ کوچ اعجاز احمد جو نیئر کو ملازمت سے فارغ کردیا گیا ہے۔

پی سی بی کے حکام کہتے ہیں کہ سینٹرل پنجاب کے ہیڈ کوچ اعجاز احمد جونیئر کھلاڑیوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے تھے انہیں کھلاڑیوں کی شکایت پر ہٹایاگیا ، دلچسپ بات یہ ہے کہ اعجاز جونیئر کی ٹیم قائد ٹرافی کی فاتح تھی۔ سابق ٹیسٹ کرکٹر توصیف احمد نے عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کی وجہ سے کوچنگ کے بجائے کوئی اور ذمے داری لینے میں دلچسپی ظاہر کی تھی ۔لیکن پی سی بی کے دوہرے معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ کے نئے کوچ باسط علی بھی دل کے مریض ہیں۔سندھ کے ہیڈ کوچ اعظم خان کو بھی کھلاڑیوں کی شکایت پر فارغ کیا گیا ہے۔وہ بھی مطلوبہ نتائج نہ دے سکے۔

ذرائع کا دعوی ہے کہ کئی تقرریوں میں ماضی کے ایک بڑے کھلاڑی کی سفارش نے اہم کردار ادا کیا ہے بندر بانٹ مضحکہ خیز ہے۔تقرریوں میں ایک گروپ کے لوگوں کو اہمیت دی گئی۔وسیم خان نے پی سی بی کا سی ای او بننے کے بعد جن بڑے برجوں کو گرایا ان میں مدثر نذر بھی ہوسکتے تھے لیکن مدثر نذر نے خود ہی پی سی بی کو چھوڑنے کا اعلان کردیا۔اب وہ مانچسٹر میں قیام پذیر ہیں۔

کوچز کی حالیہ تقرریوں پرسابق ڈائریکٹر اکیڈمی پاکستان کرکٹ بورڈ مدثر نذر کا کہنا ہے کہ امید تھی کہ سی ای او وسیم خان اپنے دوست ڈیوڈ پارسنز کے ساتھ مل کر نظام اچھا کریں گے ۔ ایسا نہیں ہوا ۔ پی سی بی میں کوچز کی تقرریوں میں پسندو ناپسند کا رحجان دیکھا گیا ہے ۔ اس سے بچیں گے اتنا بہتر ہے۔بورڈ چلانا ہے تو درست انداز میں چلائیں ۔ یہ نہ کریں کہ خود کو بچانے کے لیے بڑے کرکٹرز کی بھرتیاں کریں ۔ ٹی وی یا کہیں اور بیٹھ کر بولنے والوں کو نوکریاں دی جا رہی ہیں ۔ اب جن کو نوکریوں سے نکال بڑے نام والے کرکٹرز کو کوچز مقرر کرنا قابل ستائش ہے۔ فرسٹ کلاس کے چیمپئین کوچ اعجاز جونئیر کو نکالنا حیران کن ہے۔

محمد یوسف ، یونس خان اور فیصل اقبال کے نام تو گزشتہ برس بھی تھے۔انہوں نے کہا کہ قومی ٹیم کی شکست کے بعد کرکٹرز کے کہنے پر کیا مصباح الحق کو فارغ کر دیں گے۔مدثر نذر نے یہ بھی کہا کہ کوچ ایجوکیشن پروگرام کو ترجیح نہ دینے کا دکھ ہے ، نظام کو تباہ کر دیا ہے۔کہا جا رہا ہے کہ کرکٹرز کی رپورٹ پر معاہدے میں توسیع نہیں کی گئی ۔ قومی ٹیم کی شکست کے بعد کرکٹرز کے کہنے پر کیا مصباح الحق کو فارغ کر دیں گے ۔؟ دنیا میں کہیں کوئی کرکٹر اپنے کوچ سے خوش نہیں ہوتا ۔مدثر نذر کی بات میں بہت وزن ہے ان حالات میں بڑے کھلاڑیوں کو بڑی بڑی تنخواہیں دے کر کیا پاکستان ٹیم دنیا کی نمبر ایک ٹیم بن سکے گی۔

یہی ملین ڈالر سوال ہے جس کا جواب وقت ہی دے سکے گا، ڈپارٹمنٹل کرکٹ کو ختم کرنے والے نئے نظام کو کس طرح انقلابی بنائیں گے اسکا جواب وسیم خان اور ساتھی دے سکیں گے۔ انگلینڈ نے دوسرے ٹی ٹوئنٹی میچ میں پاکستان کو پانچ وکٹ سے شکست دے دی ،آخری تیسر ا ٹی ٹوئنٹی میچ آج کھیلا جائے گا، پاکستان کے لئے سیریز برابر کرنے کا موقع ہے مگر جیت کا چانس اس کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔