کورونا کے ساتھ جینے کی حکمتِ عملی

September 27, 2020

عالمی سطح پر پُھوٹنے والی وبا،کورونا وائرس نےجب پاکستان میں اپنے پنجے گاڑنا شروع کیے، تودیگر مُمالک کی طرح یہاں بھی لاک ڈاؤن کی حکمتِ عملی اپنائی گئی ،جس کے نتیجے میں کاروباری، ترقیاتی اور تعلیمی سرگرمیاں شدید متاثر ہوئیں۔ تاہم، گزشتہ ماہ کے آغاز میں جب کووڈ-19کا زور بہت حد تک کم ہوا، تو حکومت نے باقاعدہ طور پرکاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کی اجازت دی اور تعلیمی اداروں کو15ستمبر سے مرحلہ وار کھولنے کا فیصلہ کیا،جس کے تحت پہلے مرحلے میں احتیاطی تدابیر کے ساتھ مُلک بَھر کے ثانوی و اعلیٰ ثانوی اسکولز، کالجز اور یونی ورسٹیز میں قریباً سات ماہ بعد تعلیمی سرگرمیاں بحال ہوئیں۔

ابھی جب کہ پرائمری کلاسز کا مرحلہ باقی ہے اور کورونا کیسز بھی سامنے آرہے ہیں، تو والدین کی ایک بڑی تعداد اپنے بچّوں کو اسکول بھیجنے کے ضمن میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ اگرچہ عالمی ادارۂ صحت، حکومت اور ڈاکٹرز کی تنظیموں نے تعلیمی اداروں کے لیے باقاعدہ طور پر ایس او پیز جاری کیے، جو کاغذی طور پر تو بہت واضح اور جامع ہیں، لیکن جب تدریسی عمل کا آغاز ہوا، تو فراہم کردہ گائیڈ لائینز پر کہیں عمل درآمد ہوا اور کہیں نہیں۔سوال یہ ہے کہ اگر پہلے مرحلے میں کھولے جانے والے تعلیمی اداروں کا یہ حال ہے، تو جب دیگر کلاسز کا بھی آغاز کردیا جائے گا،تو چھوٹے بچّوں کے ایس او پیز پر عمل درآمد کی ضمانت کون لے گا اور یہی بات والدین کے تحفظات کا باعث بن رہی ہے۔مشاہدے میں ہے کہ جب سے معمول کی سرگرمیاں بحال ہوئی ہیں، عوام کی بڑی تعداد کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے کسی قسم کی احتیاطی تدابیر خاطر میں نہیں لا رہی۔

شاید ان کے ذہنوں میں یہ تصوّر ہے کہ اب کورونا وائرس مکمل طور پر ختم ہو چُکا ہے، حالاں کہ یہ درست نہیں۔ حقائق بتاتے ہیں کہ کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں نمایاں کمی کے باوجود روزانہ کی بنیاد پر خاصی تعداد میں لوگ اس موذی وائرس کا شکار ہورہے ہیں۔ اس بے احتیاطی میں اہم نکتہ یہ ہے کہ جب بڑے احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کریں گے، تو چھوٹے بچّوں سے کس طرح احتیاطی تدابیر پر عمل کی توقع کی جاسکتی ہے۔ذیل میں بچّوں سے متعلق حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایس او پیز اور ان کے نفاذ کے امکانات کاجائزہ لینے کے ساتھ چند تجاویز بھی پیش کی جارہی ہیں۔

٭پہلی بات جو بےحد اہم ہے، وہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں طلبہ کی بڑی تعداد کا ایک جگہ جمع ہوناہے۔ اس سلسلے میں تعلیمی اداروں کو اپنی دستیاب سہولتوں اور استعداد کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہوگا، جس کے لیے مختلف حکمت عملیاں اختیار کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً مختلف مدارج کے طلبہ کو الگ الگ دِنوں میں بلوایا جائے یا ایک ہی جماعت کے طلبہ کی مختلف دِنوں میں حاضری یقینی بنائی جائے،جب کہ مخلوط تعلیمی اداروں میں لڑکے اور لڑکیوں کو الگ الگ دِنوں میں بلایاجائے۔ لیکن خیال رہے کہ کلاس روم میں بھی ان کے درمیان مناسب فاصلہ رکھنا اشد ضروری ہے۔ عموماً کلاس روم میں ایک ڈیسک یا بینچ پر دو سے تین بچّے ایک دوسرے کے ساتھ بالکل جُڑ کر بیٹھتے ہیں۔موجودہ صُورتِ حال میں یہ ترتیب کسی لحاظ سے بھی قابلِ قبول نہیں۔ اصولاً اب ایک ڈیسک یا بینچ پر ایک ہی بچّہ بیٹھے اور دو بچّوں کے درمیان ایک ڈیسک یا بینچ خالی رہے۔

یہاں سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے طول و عرض میں اور ہر آبادی اور بستی کے اسکولز اور کالجز میں اتنی گنجایش ہے؟ یقیناً نہیں۔ تو پھر اس کا مطلب یہی ہوا کہ ایسے تعلیمی اداروں میں سماجی فاصلہ برقرار رکھنا بھی ممکن نہیں۔٭کورونا وائرس سےمحفوظ رہنے کے لیے ماسک کا استعمال لازمی ہے، لیکن کیا طلبہ اور اساتذہ کئی گھنٹے لگاتار گرمی اور حبس میں ماسک پہن سکیں گے؟ہم سرجنز آپریشن کے دوران کئی گھنٹے ماسک لگانے کے عادی ہیں، لیکن اس دوران ہمیں مستقل بولنے اور بات کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔پھر آپریشن تھیٹرز میں ہمیشہ معیاری ایئر کنڈیشننگ ہوتی ہے، اس کے باوجود اگر ہمیں ماسک کے ساتھ مسلسل بات کرنی پڑجائے، تو خاصی مشکل پیش آتی ہے۔ تو جو لوگ ماسک پہننے کے عادی نہیں، خصوصاً بچّے، وہ کس طرح اس پابندی پر عمل کر سکیں گے؟

نیز، ہمارے یہاں تو گھنٹوں بجلی کی بندش بھی عام بات ہے، جس سے اسپتالوں اور تعلیمی اداروں سمیت کسی کو بھی استثناء حاصل نہیں، تو ان حالات میں ماسک کا استعمال اور بھی دشوار ہو جائے گا۔٭ سماجی فاصلے اور ماسک کے استعمال کے ساتھ ہاتھوں کا بار بار صابن سے دھونا بھی کورونا وائرس سے تحفّظ کے لیے ایک انتہائی ضروری عمل ہے،لہٰذا اسکولز اور کالجز کی انتظامیہ کو پانی اور صابن کی نہ صرف فراہمی یقینی بنانا ہوگی، بلکہ باتھ رومز اور ہاتھ دھونے کی جگہوں کی تعداد بڑھانے کے ساتھ اُن کی بہتر صفائی کا انتظام بھی کرنا ہوگا۔ گرچہ ہاتھوں کی صفائی کے لیے سینیٹائزرز کا استعمال مفید ہے، لیکن بار بار ہاتھ سینیٹائز کرنا نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ خصوصاً بچّوں کی حسّاس جِلد کے لیے۔

پھر مارکیٹ میں زیادہ تر غیر معیاری سینیٹائزرز ہی دستیاب ہیں۔ واضح رہے کہ ان میں شامل اجزاء (جن کی تفصیل بھی اکثر درج نہیں ہوتی) بچّے کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتے ہیں۔٭بچّے اپنے ذاتی استعمال اور کھانے پینے کی اشیاء بکثرت ایک دوسرے سے شئیر کرتے ہیں، جو عام حالات میں ایک قابلِ تحسین عمل ہے، لیکن یہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بھی بن سکتا ہے۔٭تعلیمی اداروں کے کمروں کا ہوادار اور روشن ہونا ضروری ہے، لیکن ہمارے یہاں زیادہ تر تعلیمی ادارے چھوٹے چھوٹے گھروں یا تنگ و تاریک عمارتوں میں قائم ہیں اور اس قسم کا غیر صحت مندانہ ماحول بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بنتا ہے۔

چھوٹے بچّوں کا امیون سسٹم ویسے ہی کم زور ہوتا ہے، تو وہ جلد بیمار پڑ سکتے ہیں۔٭والدین اپنے بچّوں کو لنچ باکس لازماً ساتھ دے کر اسکول بھیجیں، تاکہ وہ کلاس روم میں اپنی جگہ پر بیٹھ کر ہی لنچ کرلیں کہ عموماً کینٹینز میں بچّوں کو اکٹھا ہونے کا موقع ملتا ہے،جو خدانخواستہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتا ہے۔٭ بیمار طلبہ، اساتذہ یا دیگر عملے کو ہرگز اسکول آنے کی اجازت نہ دی جائے۔

نیز، سرکاری طور پر کورونا کے پی سی آر ٹیسٹ کی بھی سہولت فراہم کی جائے۔٭ اگر اسکولز میں تمام تر احتیاطی تدابیر بروئے کار بھی لائی جائیں، تو بھی تعلیمی اداروں کے ذرائع آمدورفت بچّوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں کہ عموماً چھوٹی وینز اور پک اپ گاڑیوں میں گنجایش سے کہیں زیادہ بچّے بٹھائے جاتے ہیں اور اکثر ڈرائیور زپان، گٹکے اور سگریٹ کے نشے کے عادی ہوتے ہیں، تو ان کے ماسک کے استعمال کے امکانات بہت معدوم ہیں،لہٰذا والدین یہ ذمّے داری بھی خود اُٹھائیں، تو بہتر ہوگا۔اگر یہ ممکن نہیں، تو ٹرانسپورٹرز کو اس بات کا پابند کریں کہ وہ اپنی گاڑیوں میں بچّوں کے درمیان فاصلہ برقرار رکھیں اور صفائی کے معیاری انتظام کا بھی خاص خیال رکھا جائے۔٭پرائمری کلاسز کے طلبہ کا اسکول کی چُھٹی کے وقت مناسب وقفے سے باہر نکلنے کا اہتمام کیا جائے، تاکہ غیر ضروری ہجوم سے بچا جا سکے۔

ان تمام تر احتیاطی تدابیر کے علاوہ طلبہ کو وقتاً فوقتاً کووڈ-19سے متعلق معلومات فراہم کی جائیں ۔نیز،چھینکنے، کھانسنے اور دیگر سماجی طور طریقوں کی آگہی بہم پہنچائی جائے، تاکہ وہ خود بھی احتیاط کریں اور طبیعت خراب ہونے کی صُورت میں متعلقہ استاد یا فرد کو بھی فوری مطلع کرسکیں۔ وبائی ایّام میں کئی نجی تعلیمی اداروں نے’’آن لائن کلاسز‘‘ کا بھی طریقہ اپنایا۔ اگرچہ سرکاری سطح پر ایسے نظام کی عملی تشکیل ایک طویل سفر ہے، مگر اس طریقۂ کار میں وقت اور سرمائے کی بھی خاطر خواہ بچت ہے،لہٰذا حکومت اس جانب بھی توجّہ دے۔ اس کے ساتھ ہمیں نظامِ تعلیم پر بھی نظرِ ثانی کرنا ہوگی۔ تحقیقی اور تفویض شدہ کاموں پر زیادہ انحصار کرنا ہو گا۔ جانچ کے نئے زاویوں کو قابلِ عمل بنانے پر بھی غور ہونا چاہیے۔

ورچوئل ٹیچنگ کو فروغ دیا جائے،تاکہ یک ساں نظامِ تعلیم رائج ہوسکے۔ علاوہ ازیں، پلے گروپ یا پری پرائمری کو اگلے سال تک بند ہی رکھا جائے، تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔اس تناظر میں یہ بات بھی سمجھنا ہو گی کہ کورونا وائرس ایک حقیقت ہے، جس کے ساتھ ہمیں رہنا سیکھنا ہوگا۔ یعنی ہمیں ایک ایسا نیا اندازِ زندگی اپنانا ہے، جس کا محور و مرکز نہ صرف خود اپنی حفاظت ہو، بلکہ اپنے اردگرد کے لوگوں کی حفاظت بھی۔ اور یہی اصول تعلیمی اداروں میں بھی کارفرما رہنا چاہیے۔

(مضمون نگار،ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور ڈاؤ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، کراچی سے وابستہ ہونے کے ساتھ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما)کے بھی رکن ہیں)