نیکی کا اثر

September 27, 2020

سیموئیل گل

صبح صبح بیکری میں داخل ہوتے ہوئے کامی کی نظر فٹ پاتھ پر بیٹھے کم زور اور عمر رسیدہ شخص پر پڑی تو اسے بہت ترس آیا ۔ وہ اپنے والد کے ہمراہ بیکری سے ڈبل روٹی اور انڈے خریدنے آیا تھا اور اسکول لے جانے کے لیے بھی کچھ کھانے پینے کی چیزیں خریدنی تھیں ۔اس نے اپنے ابو سے کہا پاپا وہ دیکھیں بے چارے بوڑھے بابا جی جو باہر بیٹھے ہوئے ہیں ، کتنے کم زور اور بھوکے ہیں ۔ اٌن کے کھانے کے لیے بھی کچھ خریدلیں ۔

کامی کی بات سن کر اس کے پاپا بہت خوش ہوئے ۔ رات کی باتیں اس کے ذہن میں گردش کر رہی تھیں ۔جو امی جان نے اسے اور اُس کی چھوٹی بہن کو بتائی تھیں ”بچو جب بھی ہم کوئی اچھا کام کرسکتے ہوں تو ضرور کریںلیکن ہمارے پاس موقع ہو، مگر ہم پھر بھی نہ کریں تو یہ اللہ کی نافرمانی ہو گی ۔جب ہم کوئی نیکی کرتے ہیں تو اللہ تعالی بھی اس کا اجر ضرور دیتا ہے ۔‘‘

اُس بوڑھے کو دیکھ کر، جہاں کامی کو اُس پر ترس آیا ، وہاں یہ خیال بھی آیا کہ، اگر ہم نے اس کی مدد نہ کی تو اللہ تعالی ناراض ہوجائے گا ۔

تمام سوداسلف خریدنے کے بعدکامی کے والد نے دکاندار کو ایک شیِر مال بھی دینے کو کہا ۔ تازہ شِیر مال کی مہک بڑی بھلی لگ رہی تھی ۔ کامی کو شِیر مال تھماتے ہوئے اُس کے پاپا بولے ”لوبیٹا اب اٌن بابا جی کو آپ اپنے ہاتھ سے دے دو۔‘‘

کامی نے بڑی خوشی اور جوش کے ساتھ وہ شِیرمال باہر فٹ پاتھ پر بیٹھے اُس لاغر سے بوڑھے کوبڑی محبت کے ساتھ دیا۔اُسی دوران ساتھ والے کھوکھے سے ایک عدد چائے کا کپ بھی کوئی اُس بوڑھے بابا کو دے گیا تھا ۔ شیِرمال پکڑتے ہوئے بوڑھے کی آنکھیں خوشی اور شکرگزاری کے ساتھ جھلملانے لگیں ۔ اپنے میلا کچیلا ہاتھ کامی کے سر پر پھیر کر دعا دیتے ہوئے کہا ” اللہ خوش رکھے بچے“۔

کامی ایک عجیب سی خوشی اور احساس لیے ہوئے اپنے والد کے ساتھ گھر کی طرف روانہ ہوگیا ۔سچ ہے کہ دوسروں کی مدد کر کے اور ان کی ضرورت پوری کر کے انسان کو ہمیشہ ایک عجیب خوشی اور طمانیت حاصل ہوتی ہے ۔

باباجی نے شِیرمال کا لفافہ کھولا اور پھر چائے میں بھگو بھگو کر کھانے لگا ۔اسی دوران ایک کتا بھی کھوکھے کے پاس ایک تختے کے نیچے سے آنکلا ۔باباجی نے شیِرمال کا ایک ٹکڑا اُس کی طرف اُچھال دیا وہ بھی خوشی خوشی کھانے لگا ۔

باباجی نےجب پیٹ بھر کر کھالیا اورچائے کی پیالی بھی ختم ہوگئی تو انھوں نے بچا ہوا شِیرمال کاٹکڑا ایک طرف رکھ دیا ۔ بابا جی جہاں بیٹھے تھے اس کے بالکل اُوپر ہی بجلی کے تاروں پر ایک کوا تاک میں بیٹھا موقع کا انتظار کر رہا تھا ۔جونہی اس نے دیکھا کہ باباجی کا دھیان دوسری طرف ہوگیا ہےاور شِیرمال کا ٹکڑا ایک جانب رکھا ہے تو اس نے جھپٹ کروہ ٹکڑا اُٹھالیا اور یہ جاوہ جا ، نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔ باباجی کوے کی اس شرارت اور چالاکی پر مسکراکررہ گئے ۔

کو ا وہ ٹکڑا چونچ میں لیے ہوئے قریب ہی ایک گھنے درخت پر جا بیٹھا اور مزے سے تازہ شِیرمال سے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے لگا ۔

وہ اپنی چونچ سے پنجوں میں پکڑے شِیرمال کو توڑتوڑ کر کھانے میں مصروف تھا ۔وہ جس درخت پر بیٹھا تھا وہ ایک بڑے احاطے میں واقع تھا ، جودراصل ایک بڑی ورکشاپ کا حصہ تھا ۔ اُسی درخت کے نیچے پرانی کار کاڈھانچا گزشتہ کئی سالوں سے پڑا تھا اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس کار کے ڈھانچے میں بھی زندگی کے آثار موجود تھے۔اچانک کوے کے پنجوں سے شِیرمال کا باقی ماندہ ٹکڑا چھوٹ گیا اور اُسی کار کے ڈھانچے کے قریب جاگرا ۔ کوا تیزی سے اس شاخ سے اُڑا، تاکہ اُس ٹکڑے کو واپس اُٹھا سکے ، مگر اُسی دوران کار کے اُس ڈھانچے کے نیچے سے ایک کی میلی کچیلی سی لاغربِلی خود کو گھسیٹتے ہوئے باہر نکلی اُس کی پچھلی دو ٹانگیں کسی حادثے کی وجہ سے بیکار ہوچکی تھیں ۔

ِبلی کو دیکھ کر کوا گھبرا گیا اور اُس نے شِیر مال دوبارہ اٹھانے کا ارادہ ترک کرکے واپسی کی راہ لی ۔بِلی اُس ٹکڑے کو رغبت کے ساتھ کھانے لگی اور پھر اُسی طرح اپنے پچھلے دھڑکو گھسیٹتی ہوئی واپس اُسی کار کے ڈھانچے کے نیچے جاگھسی ۔

چندہی لمحوں میں چیونیٹوں کی ایک قطار شِیر مال کے بچے ہوئے چھوٹے چھوٹے ذرات کولے کر اسی درخت کی جڑ میں اپنے بل میں داخل ہونے لگیں ۔ وہ خوش تھیں کہ صبح صبح ہی اتنی لذیذ خوراک انھیں اتنی آسانی سے مل گئی ۔

کامی نےناشتے کی میز پر امی کو بتایا کہ ان کی نصیحت کے مطابق اُس نے ایک بوڑھے شخص کی مدد کی اور ایسا کرکے اسے بہت خوشی حاصل ہوئی ۔

اُس کی امی نے مسکراتے ہوئے کہا ” شاباش بیٹا یہی وہ خوشی ہے جواللہ ہمیں نیکی کرنے کے بعد عطا کرتا ہے ۔یہ خوشی پیسوں سے نہیں خریدی جاسکتی ۔“

کامی کو تو خوشی اس بات کی تھی کہ اُس نے ایک بھوکے باباجی کو کھانے کے لیے کچھ دیا ، مگر اُسے اندازہ نہیں تھا کہ اللہ نے نہ صرف باباجی کو ، بلکہ ایک کتے ، ایک کوے ، معذور بِلی اور کئی چیونٹیوں کو بھی رزق مہیا کیا ۔

سچ ہے کہ اللہ تعالی ہماری کسی بھی نیکی کو ضائع نہیں جانے دیتا ۔ اس نیکی کا اثر بہت دور تک جاتا ہے ۔ ہمیں بھی اُس کا اَجر ملتا ہے اور دوسرے بھی بہت سے لوگ اور جان دار اُس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔