ادبی لطائف

October 05, 2020

دو خصوصیات

پطرس بخاری کے کسی عزیز کا نکاح تھا۔ اس کے لیے مولوی درکار تھا۔ تلاش بسیار کے بعد ایک شخص ڈھونڈ کر لایا گیا۔ جو بہت دبلا پتلا تھا۔ پطرس دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور بولے “ نکاح کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ نکاح خواں کی اور چھوہاروں کی۔ ماشاء اللہ ان میں دونوں صفات موجود ہیں۔“

پیروڈی

دہلی میں پیروڈی شاعری کا مشاعرہ تھا ۔ جب گلزار زتشی کا نام صدارت کے لیے پیش کیا گیا تو وہ انکسار سے بولے :

حضور ! میں صدارت کا اہل کہاں ہوں ؟

اس پر کنور مہندر سنگھ نے فرمایا :

مطمئن رہیں ، آپ بھی صدر کی پیروڈی ہی ہیں ۔

رائے دینا

ایک ڈراما نگار کا ڈراما اسٹیج ہوا تو اس نے جارج برنارڈشا کو بھی ڈرامہ دیکھنے کی دعوت دی ۔ ڈرامے کے دوران سارا وقت برنارڈشا سوئے رہے ۔ جب ڈراما ختم ہوا تو ڈراما نگار نے خفگی سے کہا ۔

“ میں ڈرامے کے بارے میں آپ کی رائے جاننے کا متمنی تھا ،مگر آپ سارا وقت سوئے رہے ۔“

برنارڈشا نے بڑے سکون سے جواب دیا ،’’ سونا بھی تو ایک طرح کی رائے ہی ہے ۔“

غزل کا جادو

مولانا حالی کے مقامی دوستوں میں ایک مولوی وحیدالدین سلیم پانی پتی تھے۔ جب مولوی وحید صاحب پانی پت جاتے تو مولانا حالی کے پاس گھنٹوں بیٹھا کرتے. ایک روز صبح ہی صبح پہنچے. مولانا حالی نے رات کو کوئی غزل کہی تھی وہ ان کو سنائی. سلیم پانی پتی اسے سن کر پھڑک اٹھے اور کہنے لگے " مولانا والله جادو هہے"

مولانا حالی کے بالاخانے کے نیچے ایک کوٹھری تھی جو انہوں نے ایک مجذوب فقیر کورہنے کے لیے دے رکھی تھی وہ مجذوب باہر گلی میں بیٹھا دھوپ سینک رہا تھا جب اس کے کان میں یہ فقرہ پہنچا تو بے اختیار چلا اٹھا " جادوبرحق کرنے والا کافرہے کافرہے" مولانا حالی نے مسکراکر سلیم صاحب سے کہا،"لیجیے مولوی صاحب "سرٹیفکیٹ" مل گیا"

ن.م راشد کی شاعری پر منٹو کا تبصرہ

سعادت حسن منٹو بڑی تیزی سے ریڈیو اسٹیشن کی عمارت میں داخل هہوئے. برآمدے میں کھڑی مڈگارڈوں کے بغیر کھڑی ایک سائیکل دیکھ کر لمحے بھرکے لیے رک گئے۔ اس سائیکل کو دیکھ کر ان کی موٹی سی آنکھوں میں مسکراہٹ کی ایک چمک رقص کرنے لگی وہ چیخ چیخ کر کہنے لگے " راشد صاحب راشد صاحب ذراجلدی سے باہر تشریف لائیے. شور سن کر ن.م راشد کے علاوہ کرشن چندر اوپندر ناتھ اشک اور ریڈیو اسٹیشن کے دوسرے کارکن بھی ان کے گرد جمع هہوگئے۔

" راشد صاحب آپ دیکھ رہے هہیں اسے !! منٹو نے اشارہ کرتےہوئے کہا، بغیر مڈگارڈوں کی سائیکل! خداکی قسم سائیکل نہیں بلکہ حقیقت میں آپ کی کوئی نظم ہے۔

فراق گورکھپوری کی حاضر دماغی

علی گڑھ کے ایک مشاعرے میں جب فراق گورکھپوری اسٹیج پر آنے لگے تو لڑکوں نے نعرہ لگایا " ٹوپی پہنو ٹوپی پہنو"

فراق صاحب تھوڑی دیر خاموش کھڑے رہے جب شور تھما تو انہوں نے نہایت تحمل سے جواب دیا:

" میاں ٹوپی اوڑھی جاتی ہے ....جوتا پہنا جاتا هہے"

مجمع قہقہوں سے گونج اٹھا اور شور کرنے والے شرمندہوکر رہ گئے۔