اُردو کا ’’زندانی ادب‘‘

October 26, 2020

محمد سعیدالرحمٰن سعدی

اردو زبان و ادب کا دامن متعدد اصناف سخن سے مالا مال ہے۔ اسی میں ایک صنف ’’زندانی ادب ‘‘ یا’’ادب زنداں ‘‘کی ہے۔زندانی ادب سے مراد وہ تحریریں ہیں، جنھیں ان کے مصنفین نے دوران اسیری یا قیدو بند سے رہائی کے بعد تحریرکیں۔جن کا تعلق روداد اسیری ،داستان قیدوبند ،احوا ل زنداں اور جیل کے کوائف وروزنامچوں سے نظم یا نثر میں ہو۔امتداد زمانہ کے ساتھ اس کے دائرہ میں وسعت آتی گئی ہے ،یہاں تک کہ اب ہر وہ تحریر اس صنف میں شامل سمجھی جا تی ہے ،جو اسیری و نظر بندی کے دوران رقم کی گئی ہو، خواہ ا س کا موضوع تدریسی وعلمی ہو یا فکری واصلاحی، تاریخ و سیاست سے اس کا رشتہ ہو یا تحقیق و تنقید سے ،خلاصہ یہ کہ علم و ادب کی تما م مرکزی وذیلی شاخیں اس کے دائرئہ اطلاق میں شامل ہیں ،بس شرط یہ ہے کہ موے قلم سے صفحہ قرطاس تک کی منتقلی کا سفر دوران اسیری پیش آیا ہو۔

بہ طو ر صنف اس کا آغاز انیسویں صدی کے نصف آخر میں ہوا ،اگر چہ اس سے پہلے بھی جستہ جستہ کچھ ابتدائی نمو نے پائے جا تے ہیں ، جسے ہم اس صنف کی بنیاد اور اس کے نقوش اولیں سے تعبیر کر سکتے ہیں ،تاہم یہ باضابطہ طور پر متعارف اسی وقت ہو ئی جب انگریزوں کے خلاف۱۸۵۷ کا انقلاب آیا او ر فرنگیوں نے انقلابی قائدین و مجاہدین کو پس دیوار زنداں کر کے اس تحریک کو ختم کر نا چاہا، تواس وقت ان میں سے کچھ مجاہدین نے اس چنگاری کو الفاظ کی صورت میں قلم کی شمشیر سے قرطاس کی بھٹی میں جھونک کر شعلۂ جوا لہ بنادیا،اور بعض قائدین و رہنما وئں نے، جن کی اکثریت علما ، فضلاوادبا پر مشتمل تھی ،اسارت کی اداسیوں ،قید کی تنہائیوں اور جیل کی بے رنگیوں کو اپنے خوب صورت علمی و ادبی گہر پاروں سے گلزار کر دیا ،چناں چہ ’ تواریخ عجائب‘‘ (جس کا دوسرا نام ’’کا لا پانی ‘‘ ہے ) نا می کتاب کو اس صنف میں اول مقام حاصل ہے،(بعض مورخین ادب نے اسے پہلی خود نوشت سوانح بھی قرار دیا ہے)یہ دراصل قائد انقلاب مولانا جعفر تھانیسری کی دو جلدوں پر مشتمل خود نوشت سر گزشت ہے، جسے انہوں نے 1879 یا 1880 میں کا لا پا نی کی اسیری کے دوران تحریرکیا تھا ،پھر اس کے بعد تو زندانی ادب میں یکے بعد دیگرے مسلسل کتا بوں کا اضافہ ہو تا چلا گیا،جو کسی نہ کسی حد تک اب بھی جا ری ہے ۔

1857ء کا انقلاب اور اس کے بعد آزادی ہند تک کے سر گرم ،پرجوش اور ہنگامہ خیز حالات بڑی حد تک اس کے لیے معاون و سازگار ثابت ہوئے۔ نہ جانے کتنی شخصیات پابند سلاسل کی گئیں اور اس کے نتیجے میں زندانی ادب کا دائرہ بڑھتا گیا؛لیکن اجتماعی حیثیت سے ادب زنداں کے ذخیرے میں قابل قدر اضافے ایک تو 1857 اور اس کےبعد کی تحریکوں کا زمانہ ،جس کے نتیجے میں ہزاروں رہنما اسیر کیے گئے،دوسرے تحریک خلافت کے بعد سے آزادی ہند تک کا دور، جس میں بے شمار ہستیوں کو قید و بند کی ہوا کھانی پڑ ی ۔غرض کہ انیسویں صدی کی آخری دہائی اور بیسویں صدی کی آٹھ دہائیوں تک زندانی ادب کا دور دورہ رہا ،اس کے بعدآخری دو دہائی میں اضافے کی شرح کچھ کم ہوئی،اور اکیسویں صدی میں آکر توایسا لگتا ہے کہ اس کی رفتار تھم سی گئی ہے،جس کے پس پشت بہت سی وجوہات ہیں۔

مثلاً اردو زبان وادب پرپر طاری جمود، تغیرزمانہ کے تحت افکار وخیالات کا فرق،قرطاس وقلم کے علاوہ دیگر ذرائع علم وخبرکی ترویج وترقی یا اس قسم کی تحریر وں سے قارئین کی عدم د ل چسپی۔’’ زندانی ادب‘‘ کے نام سے جو ذخیرے دستیاب ہوئے ،ان کا شمار ہزاروں نہ سہی سیکڑوں میں ضرور کیا جا سکتا ہے۔ درسی و مذہبی تصنیفات کے عنوان پر نسبتاکم کتابیں پائی گئیںلیکن پھر بھی اس ذیل میں جو کتابیں دستیاب ہوئیں ان میں تحریک ریشمی رومال کے کارساز مولانا محمود حسن دیوبندی کا ’’ترجمہ قرآن مع حاشیہ‘‘ جو اسارت مالٹا کے زمانہ میں ۱۹۱۷؁ء تا ۱۹۱۸؁ تحریر کیا گیا۔مشہورخطیب اور قائد آزادی مولانا ابوالکلام آزاد کا تر جمہ و تفسیرموسوم بہ ’’ترجمان القران‘‘، تحریک اسلامی کے بانی مولانا ابو الاعلی مودودی ؒ کی کتاب’’ تفیہم القران‘‘ اور’’ تفہیم الاحادیث ‘‘کے اکثر اجزا ،مفتی عنایت احمد کاکوری کے کچھ درسی رسالے، خصوصا علم صرف کی مشہور کتاب’’ علم الصیغہ‘‘کا اردو ترجمہ ،مولانا سید عروج احمد قادری کی ’’تفسیر سورہ یوسف‘‘ مشہور اخوانی رہنما سید قطب شہید کی تفسیر ’’فی ظلال القران‘‘ کا اردو ترجمہ ،ترکی کے اسلامی انقلاب کے روح رواں ’’ سعید نورسی ‘‘کے مختلف دینی رسالوں کے اردو تراجم، نیز اس طرح کی دیگر درجنوں کتابیںجو ہمارے درسی و مذہبی ذخیرے کے لیے مایۂ افتخار ہیں ۔

سوانحی و واقعاتی تصانیف ’’ ادب زنداں ‘‘ کی سب سے وسیع ، اہم اور دلچسپ صنف ہے۔یہی وہ گوشہ ہے ،جس پر’’ زندانی ادب‘‘ کا کامل اور بلاواسطہ اطلاق ہو تاہے ،اس کے تحت اسمائے کتب کی ایک طویل فہرست ہے ،’’اہم کتابوں میں ،مولانا حسین احمد مدنی کی’’ نقش حیات ‘‘ ، اور ’’سفرنامۂ مالٹا ‘‘،مولانا ابوالکلام آزاد کی ’’تذکرہ‘‘ ،رئیس الاحرار قاضی فضل حق کی ’’میرا افسانہ‘‘، مولانا حسرت موہانی کی ’’مشاہدات زنداں ‘‘،گاندھی جی کی خودنوشت سوانح ’’تلاش حق ‘‘،پنڈت جواہر لال نہرو کی ’’میری کہانی ‘‘ اور’’تلاش ہند‘‘،پروفیسر خورشید احمد کی’’تذکرئہ زنداں ‘‘ ،سید علی گیلانی کی ’’مقتل سے واپسی‘‘ اور ’’روداد قفس‘‘، افتخار گیلانی کی’’ تہاڑ میں میرے شب وروز‘‘، مہرکاجیلوی کی’’داستان زنداں ‘‘، امداد صابری کی’’ تاریخ جرم و سزا‘‘،ریاض الرحمن ساغر کی’’ سرکاری مہمان خانہ‘‘ ،عبد اللہ ملک کی ’’جیل یاترا‘‘،جاں باز مرزا کی’’ بڑھتا ہے ذوق جرم‘‘ ، عقیل جعفری کی’’ جیل خانہ‘‘ ،انجم زمرد جبیں کی’’ قیدی نمبر سو‘‘، محمد اکرم کی’’ قید یاغستان‘‘ ، برکت علی غیور کی’’ جرم جیل اور پولیس‘‘،زینب الغزالی کی عربی تصنیف کا اردوترجمہ’’ زنداں کے شب وروز‘‘ ،مخدوم جاوید احمد ہاشمی کی ’’ہاں میں باغی ہوں ‘‘، راجہ انور کی ’’قبر کی آغوش‘‘،یوسف رضاگیلانی کی ’’چاہ یوسف سے صدا‘‘،مفتی عبد القیوم کی’’ گیارہ سال سلا خوں کے پیچھے‘‘، ترک نژاد جرمنی صحافی مراد کرناز کی کتاب کا اردو ترجمہ’’ گوانتا نامو بے میں پانچ سال‘‘

آغاشورش کاشمیری‘‘ جن کی چھ سے زائد کتا بیں زندانی ادب کی اس صنف کا اہم حصہ ہیں ، جن میں ’موت سے واپسی‘ ،’پس دیوارزنداں‘ ،’تمغۂ خدمت‘ ،’قید فرنگ‘ ،’بوے گل ‘،’نالۂ دل دود چراغ محفل اور قیدی کا روز نامچہ شامل ہیں ۔

شعری مجموعوں میں بہادر شاہ ظفر،مولانا حسرت مو ہانی ،مولانا محمد علی جوہر،مولانا ظفر علی خان ، شورش کاشمیری ،علامہ انور صابری، سردار جعفری ،حفیظ میرٹھی ،فراق گو رکھپو ری ،حبیب جالب ،احمد فراز ،اسرار جامعی اور دیگر انقلابی شعرا ءکے نام کافی اہم ہیں، ان حضرات کے مجموعۂ کلام اورکلیات کا بیش تر حصہ پس دیوار زنداں ہی تیار ہوا،یہاں فیض احمد فیض کا ذکر نہ کر نا بڑی نا انصافی ہو گی، جن کے دو اہم مجمو عۂ کلام کا سبب ہی قید وبند کے ساڑھے تین سالہ ایام بنے، یعنی’’ دست صبا‘‘ اور’’ زنداں نامہ‘‘، جو اب ان کی کلیات کاایک اہم حصہ ہے ۔

قید کیے جا نے والے اکثر اہل علم ،صحافی ،شعرا ءاور ادیبوں نے باہرکی دنیا سے تعلقات کے لیے مکتوبات ہی کو ذریعہ بنایا۔زندانی ادب کے موجودہ ذخیرے میں دسیوں مجموعۂ مکاتیب کا ذکر ملتا ہے، مثلا: مولانا ابوالکلام آزاد کی ’’غبار خاطر‘‘ ،فیض احمد فیض کی’’ صلیبیں میرے دریچے میں ‘‘ ،سجاد ظہیر کی’’ نقش زنداں ‘‘ ،خرم مرا د کی’’ لمحات زنداں ‘‘،میا ں محمد طفیل کی’’ مکاتیب زنداں ‘‘ ،انعام الرحمن خاں کی’’ میسا کے شگوفے‘‘ اور’’ زنداں کا داعی‘‘ ،شہید اشفاق اللہ خاں کی’’ ماں کے نام خطوط‘‘ اور مولانا مودودی کے’’ زندانی مکاتیب ‘‘جو ان کے مجموعۂ مکاتیب میں شامل ہیں ۔

مختلف جیلوں میں تحریر کیے گئے مولانا ابوالکلام آزاد کے چند رسالے اور کتابچے ،ایام تعذیب وابتلا کے دوران سپرد قرطاس کی گئی۔ سید قطب شہید کی متعدد تحریروں کے اردو تراجم ،مولا نا مودودی کے چنداہم علمی رسائل ،’’زمیندار‘‘ میں شائع ہونے والے مولانا ظفر علی خاں کے بہت سے علمی و ادبی مضامین ،مولانا غلام رسول مہر و عبدالمجید سالک کی چند تاریخی و تحقیقی کتا بیں بھی شامل ہیں ۔

جس طرح اردو ادب کی تمام اصناف (خواہ وہ نثری ہوں جیسے ناول ،افسانہ، سوانح، خاکہ، سفرنامہ،اور تنقید وغیرہ یا شعری جیسے نظم، غزل، مثنوی، مراثی اور رباعی وغیرہ) کچھ خصوصیتــــوں میں مماثلت ومشارکت کے علاوہ کسی نہ کسی خاص وصف اور جداگانہ امتیاز سے اپنی شناخت رکھتے ہیں ، بالکل اسی طرح اس صنف کی بھی کوئی خاص خوبی اور انفرادی پہچان ہے۔، ہر صنف کی جداگانہ خوبیوں میں اس کا مکمل حصہ ہے ،دوسرے یہ کہ تحریر میں تاثیر کے حوالہ سے مشہور محاورہ ہے’’ از دل خیزد ،بر دل ریزد‘‘ یعنی تاثیر کا ایک بڑا ذریعہ خلوص و اخلاص اور سوزوگداز ہو ا کر تا ہے، ویسے تو خلوص اور سوز حقیقتا آدمی کے اندرسے تعلق رکھتے ہیں لیکن بسا اوقات کچھ خارجی حالات بھی ان کو وجود میں لا نے کے لیے سازگار ثابت ہو تے ہیں ، مثلاََعشق،فنا،درداور ستم ہاے روزگار وغیرہ ،ٹھیک، اسی طرح یہاں بھی گردش ایام، جیل کی ہولناکیاں ، سختیاں اور قید کی تلخیاں لکھنے والے کے قلم میں خاص سوزوگداز پیدا کر دیتی ہیں ، جن کی وجہ سے اس کی تحریر کے اندر ایک عجیب قسم کی اثر آفرینی اور طلسم پیدا ہو جاتا ہے۔