پہاڑ اور گلہری

November 08, 2020

علامہ اقبال

کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے

تجھے ہو شرم، تو پانی میں جا کے ڈوب مرے

ذرا سی چیز ہے، اس پر غرور! کیا کہنا!

یہ عقل اور یہ سمجھ، یہ شعور! کیا کہنا

خدا کی شان ہے ناچیز چیز بن بیٹھیں!

جو بے شعور ہوں یوں با تمیز بن بیٹھیں!

تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے؟

زمیں ہے پست مری آن بان کے آگے

جو بات مجھ میں ہے تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں

بھلا پہاڑ کہاں، جانور غریب کہاں!

کہا یہ سن کے گلہری نے، منہ سنبھال ذرا

یہ کچی باتیں ہیں دل سے انھیں نکال ذرا!

جو میں بڑی نہیں تری طرح تو کیا پروا!

نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا

ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے

کوئی بڑا، کوئی چھوٹا، یہ اس کی حکمت ہے

بڑا جہان میں تجکو بنا دیا اُس نے

مجھے درخت پہ چڑھنا سکھا دیا اُس نے

قدم اٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں

نری بڑائی ہے ! خوبی ہے اور کیا تجھ میں

جو تُو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو

یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو

نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں

کوئی برُا نہیں قدرت کے کارخانے میں​