نایاب نسل کے جانوروں کا غیر قانونی شکار

December 13, 2020

جنگلی حیات ہر خطے میں فطری حُسن کی علامت ہوتی ہے،دنیاکے کئی ممالک میں نایاب نسل کے جانوروں کو توجہ کے ساتھ جنگلات میں رکھا جاتا ہے، تاکہ ان کی نسل کی افزائش ہوتی رہے ۔صوبہ سندھ کے ضلع تھرپاکر صحرائے خطہ ہونے کے باعث جنگلی حیات کا مرکز بھی رہا ہے، یہاں موجود وائلڈ میں چنکارا نسل کے ہرن،نیل گائے جب کہ پرندوں میں خُوب صورت مور ،تیتر سر فہرست ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت تھر کے مختلف علاقوں میں دس ہزار ہرن،چار لاکھ مور ،دو سو تک نیل گائے،اور بڑی تعداد میں تیتر اور خرگوش پائے جاتے ہیں، مگر اس وقت نیل گائے کافی حد تک نایاب ہو چکی ہے اور ہرنوں کی تعداد بھی سال بہ سال بڑھنے کے بہ جائے کم ہوتی جا رہی، جب کہ دس سال قبل سرحدی پٹی کے دیہاتوں میں رات کے وقت ہرن بکریوں کی طرح ریوڑ کی شکل میں کنوؤں کے قریب جمع ہو جاتے تھے اور علی الصبح پھر جنگل کو لوٹ جاتے تھے۔

عام طور پر تھر کے لوگ جنگلی حیات کو مارنا اور شکار کے مخالف رہے ہیں،مگر پچھلے کچھ عرصے سے پکی سڑکوں کا نیٹ ورک دور دراز دیہاتوں تک پھیلنے کے باعث دیگر علاقوں سے شکاریوں کی آمد کا سلسہ بڑھتا جا رہا ہے۔قانونی گرفت کم زور ہونے کے باعث یہ شکاری مکمل اہتمام کے ساتھ ان علاقوں میں پہنچ جاتے ہیں اور چند مقامی لوگوں کے تعاون سے نایاب نسل کے جانوروں کو شکار کا نشانہ بنا رہے ہیں اور ساتھ ہی ہرنوں کی فروخت بھی کی جارہی ہے۔ اسی طرح سے سرکاری شخصیات کی خاطر تواضع کے لیے بھی ہرنوں کا شکار کروایا جاتا ہے، جس کے خلاف کارروائی کے لیے محکمہ جنگلی حیات کے مقامی ملازم کوئی ایکشن لیتے ہیں تو انہیں سیاسی طور پر تبادلہ کر کہ ضلع بدر کیا جاتا رہا ہے۔ نتیجے میں ان جانوروں کے حق میں مخالف ماحول جڑنے یعنی ڈر کی وجہ سے ان جانوروں نے دیہاتوں کے قریب آنا چھوڑ دیا ہے اور جنگلات میں شدید گرمیوں کے دوران پانی نہ ملنے کے سبب بھی ان کی زندگی مزید مشکل بنی رہتی ہے۔

ان علاقوں تک شکاریوں کی رسائی وائلڈ لائف پروٹیکشن نیٹ ورک کی کم زوری کے باعث آئے دن تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ کچھ روز قبل نگرپارکر کے علاقے امیدو جو وانڈھیو میں پیش آیا، جہاں بے رحم شکاریوں نے دو مادہ ہرنوں کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا ۔سناٹے والے ماحول میں بندوق کی گولیوں کی آوازیں سننے پر گائوں کے مکین جمع ہوئے تو شکاری ایک ہرن کو ساتھ لے کر جانے میں کام یاب ہو گئے اور ایک ہلاک ہرن کو وہیں چھوڑ کر فرار ہوئے، جسے شہر لاکر پوسٹ مارٹم کر کے دیکھا گیا، تو پیٹ سے بچہ بھی نکل آیا، جس کے پیدائش میں چند روز باقی تھی۔

اس واقعہ میں محکمہ جنگلی حیات کو سال 2020 میں ترمیم شدہ وائلڈ لائف ایکٹ کے تحت ایک ہرن کے شکار پر ڈھائی لاکھ پر جرمانا عائد کرنا تھا، مگر ملزم کی شناخت اور گائوں مکینوں کی نشاندہی کے بعد بھی کسی وجہ سے کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکی ۔تاہم اس سے قبل وائلڈ لائف قوانین انتہائی کم زور تھے، جس میں ملزم پر چند ہزار روپے جرمانہ عائد ہوتا ہے، مگر تازہ ترمیم شدہ ایکٹ کے مطابق ہرن کے شکار پر جرمانہ ڈھائی لاکھ اور مور کے شکار یا ساتھ لے جانے والے ملزم پر مقدمہ درج کرنے کے ساتھ جرمانہ بیس ہزار روپے بنتا ہے۔

ان قوانین پر عمل درآمد سمیت وائلڈ لائف کے تحفظ اور شکاریوں پر کڑی نظر رکھنے کے حوالے سے محکمہ وائلڈ لائف تھرپارکر کے آفیس اسٹرکچر کا جائزہ لیا گیا تو موصول شدہ معلومات کے مطابق دو سینچری زون میں تقسیم شدہ وائلڈ لائف ایریا کا کل رقبہ 9ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے، جس میں رن آف کچھ کے نام سے شناخت رکھنے والے سینچری زون ایریا کی اراضی 8300 کلومیٹر ہے، جس میں ڈیپلو،اسلام کوٹ نگرپارکر اور کلوئی کے علاقے شامل ہیں اور چنکارا سینچری زون کی حدود940 مربع کلو میٹر پرمشتمل ہے، جس میں مٹھی اور چیلہار کے علاقے شامل ہیں، مگر صوبائی حکومت کی وائلد لائف کو بچانے کی سنجیدگی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک ڈیزرٹ ایریا میں فقط دس ملازمین تعینات ہیں، جب کہ 35آسامیاں عرصے سے خالی پڑی ہوئی ہیں۔

ضلع بھر میں وزٹ کے لیے فقظ دو گاڑیاں موجود ہیں ۔ نتیجے میں عملی طور پر وائلڈ لائف کو تحفظ دینا بہ ظاہر ناممکن بنا ہوا ہے۔اس ضمن میں جنگ کی جانب سے رابطہ کرنے پر محکمہ جنگلی حیات کے ڈپٹی کنزرویٹر میر اعجاز تالپور نے بتایا کہ موجود ورسائل کے اعتبار سے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ ہر جگہ پہنچیں، مگر عملے کی کمی کی وجہ سے بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر ہر تحصیل میں کم سے کم دس ملازمین کی تعیناتی کر کے دی جائے، تو بہتر نتائج دے سکتے ہیں۔

نئے ایکٹ پر عمل درآمد کے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ستمبر میں قوانین میں ترمیم کی گئی، مگر ان کے مطابق ابھی تک کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے۔دریں اثناء ضرورت اس بات کی ہے محکمہ وائلڈ لائف تھرپاکر کو مکمل طور پر فعال بنا کر وائلڈ لائف کے اعداد و شمار اکٹھے کیے جائیں اور ساتھ ہی اس جرم میں ملوث پائے جانے والے مجرموں کے خلاف بلاتاخیر و تفریق کارروائیاں عمل میں لائیں جائیں تاکہ اس خطے کی وائلڈ لائف کو بچایا جا سکسے جوکہ صحرائی خطے کے فطری حسن کی علامت ہیں۔