سختیوں کے باوجود شہباز شریف اپنے قائد نواز شریف کیساتھ وفادار

February 11, 2021

وطن عزیز میں بڑھتی ہوئی سیاسی محاذ آرائی کے کربناک ماحول نے ملکی استحکام کے لئے تشویش ناک صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔ سیاسی بیان بازی کے جارحانہ زاویے نے قومی یکجہتی اور سالمیت کے تقاضوں کے تمام معاملات کو بھی المناک کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری اس سیاسی کشیدگی نے اداروں کو بھی ’’متنازعہ‘‘ بنا کر رکھا دیا ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر فریقین کے ’’طرز عمل‘‘ نے جمہوری اور پارلیمانی نظام کے لئے بھی کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔

واقفان حال کا کہنا ہے کہ ان حالات میں سب سے زیادہ ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ جتنا اس حکومت کے دور میں اداروں کو کھل کر سیاست میں گھسیٹا جا رہا ہے شاید اس سے قبل اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے اور یہ بھی محسوس کیا جا رہا ہے کہ ’’کپتان‘‘ اور اُن کے جارحانہ مزاج کے ہمنوا وفاقی وزراء نے اپوزیشن کے بیشتر سرکردہ راہنمائوں کو ’’انتقامی سیاست‘‘ کا نشانہ بنانے کے علاوہ کسی بھی حکومتی معاملے میں دلچسپی نہ لی ہے اور نہ ہی عوامی فلاح و بہبود کے کسی قابل ذکر منصوبے سے مجبور عوام کو مستفید کیا ہے۔ حکومت کی تمام مشینری ماضی کی حکومتوں کی کرپشن کا ڈھنڈورا پیٹنے، سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات کی رفتار کو بڑھانے، اور آئی ایم ایف کی شرطیں پوری کرنے کی طرف خصوصی توجہ دے رہی ہے۔

پٹرول کی قیمتوں میں یکے بعد دیگرے اضافہ نے نہ صرف عوام کے لئے مہنگائی کا طوفان کھڑا کر دیا ہے بلکہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے نے تو متوسط طبقے کی چیخوں کو مزید بلند کر دیا ہے۔ حکومت کی ناقص پالیسیوں سے بیروزگاری اپنے عروج پر دکھائی دے رہی ہے اور ہوشرباء گرانی نے مسائل میں گھرے ہوئے بے بس عوام کا جینا مشکل کر دیا ہے۔ حکومتی ترجمانوں کی فوج ہمہ وقت معاشی اشاریوں کی بہتری کا عندیہ دینے کی نوید سنانے میں مصروف رہتی ہے جبکہ عملی اقدامات مہنگائی کے طوفان دکھا رہے ہیں اور عوام کی پریشانی میں اضافہ کر رہے ہیں۔

وفاقی دارالحکومت ایک بار پھر حسب روایت افواہوں کی زد میں ہے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ تبدیلی سرکار کی تبدیلی کے بارے میں غور و خوض جاری ہے کیونکہ کئی معاملات میں ’’مقتدر اداروں‘‘ میں بھی یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ خوشگوار اور سازگار ماحول فراہم کرنے کے باوجود ’’سونامی قیادت‘‘ کسی بھی شعبے میں کوئی قابل ذکر کارکردگی کا کوئی عملی نمونہ پیش نہ کر سکی ہے۔ اقتدار کا آدھا عرصہ گزارنے کے بعد بھی ابھی تک کوئی منصوبہ بندی کا مثبت پہلو برآمد نہیں ہو سکا۔

یار لوگوں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے اتحاد پی ڈی ایم کی طرف سے استعفوں کے لئے دی گئی ’’ڈیڈ لائن‘‘ کے باوجود استعفے نہ دینے کے پس منظر میں بھی کئی کہانیاں پوشیدہ ہیں۔ سیاسی حلقوں میں یہ خبر بھی گردش کر رہی ہے کہ گو سینیٹ کے انتخابات حکومت اور پی ڈی ایم کی سیاست کا ’’محور‘‘ بنے ہوئے ہیں لیکن پی ڈی ایم میں شامل اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کے درمیان بھی آپس میں ’’سیاسی شطرنج‘‘ کا کھیل جاری ہے؟

یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ حکومت کی اتحادی جماعتوں اور حکومتی پارٹی کے اندر پائے جانے والے اضطراب کو ختم کرنے کے سلسلہ میں بھی ’’کپتان‘‘ کو ’’خصوصی خوراک‘‘ دی گئی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کپتان اور اُن کی جماعت کی ساکھ کو کرپشن کے حوالے سے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ سے شدید دھچکا پہنچا ہے اور اس رپورٹ نے کپتان کے ’’بیانیے‘‘ کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے اور بعض حلقوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ مذکورہ رپورٹ وزیراعظم عمران خان اور اس کی حکومت کے لئے کسی ’’چارج شیٹ‘‘ سے کم نہیں ہے کیونکہ یہ کسی مخالف سیاسی جماعت کی طرف سے شائع کئے جانے والا ’’وائٹ پیپر‘‘ بھی نہیں ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ عمران خان اس ادارے کی رپورٹ کو اتنا معتبر جانتے ہیں کہ ماضی میں اپنے مخالفین کے خلاف اس ادارے کی رپورٹس کو بطور ہتھیار استعمال کرتے رہے ہیں۔

وفاقی دارالحکومت کے سیاسی حلقوں میں حکومتی وزراء کی نجی محفلوں میں یہ بات بھی سننے میں آ رہی ہے کہ مشیر احتساب کپتان کے ’’کانوں کے کچے ‘‘ ہونے کی خوبی سے بڑا فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ بیشتر معاملات میں سب سے قبل گوشمالی کر کے کئی ایسی معلومات فراہم کر رہے ہیں جس کی وجہ سے حکومت کو بعد میں ’’ندامت‘‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صوبائی دارالحکومت بھی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب سینیٹ انتخابات کے علاوہ ضمنی انتخابات کی وجہ سے اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی سے قدم قدم پر مشاورت کر کے اُن کے تجربہ کی روشنی میں ارکان اسمبلی سے رابطوں میں مصروف رہتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے خلاف تمام کارروائیاں براہ راست وزیراعظم عمران خان کی ہدایات پر حکومت پنجاب کی طرف سے کی جا رہی ہیں اور ضمنی انتخابات والے حلقوں میں سرکاری مشینری سے اپوزیشن کے امیدواروں کو انتظامی ہتھکنڈوں سے ہراساں کیا جا رہا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف اور ان کے بیٹے میاں حمزہ شہباز شریف آزمائش کے اِس دور میں بڑے عزم، حوصلے اور استقامت سے مردانہ وار مقدمات کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے حکومت کو ہر مرحلے پر ثابت کر دیا ہے کہ کوئی بھی بڑی سے بڑی تکلیف اُن کو اُن کے مشن سے نہیں روک سکتی۔ میاں شہباز شریف کے بارے میں جو یہ رائے رکھتے تھے کہ وہ ’’مفاہمتی سیاست‘‘ کی وجہ سے خاموشی کو ترجیح دیں گے۔ انہوں نے اپنے طرز عمل سے اُن حلقوں کو یہ پیغام بھی دے دیا ہے کہ وہ اپنے قائد میاں نواز شریف سے وفاداری کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے کا جذبہ رکھتے ہیں۔

سیاسی حلقوں میں چین کے نمائندہ کی طرف سے اُن کی ’’عوامی خدمات‘‘ کے اعتراف میں لکھے جانے والے خط کو بھی تحسین کی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے اور برطانوی عدالت میں ہتک عزت کے مقدمے کی ابتدائی سماعت کے دوران عدالت کے مشاہدے کے پہلے مرحلے کے انکشاف نے بھی میاں شہباز شریف کی ’’سیاسی ساکھ‘‘ اور شخصی وقار میں اضافہ کیا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومتی ترجمانوں اور ’’احتساب اکبر‘‘ کے اس معاملہ میں ردّ عمل سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت میاں شہباز شریف کے حوالہ سے بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔