کراچی کی نئی سیاسی Dynamics

March 01, 2021

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سیاسی حرکیات (Political Dynamics) تیزی کے ساتھ اور بہت زیادہ تبدیل ہو چکی ہیں۔ سیاسی اور غیرسیاسی قوتیں، جو کراچی کی سیاست پر اثر انداز ہوتی ہیں، دونوں اب تک اس تبدیلی کا ادراک نہیں کر سکیں۔ یہ بات نہ صرف ان کے لئے بلکہ کراچی کے لئے اچھے نتائج کی حامل نہیں ہو گی۔ اس سے پہلے کہ کراچی میں ہر سیاسی اور غیرسیاسی حکمتِ عملی مکمل طور پر ناکامی سے دوچار ہو، اس تبدیلی کا درست ادراک کر لینا چاہئے۔

کراچی کی سیاسی حرکیات میں تبدیلی کا بنیادی سبب اس شہر کی بہت بڑی آبادی اور آبادی کے مختلف گروہوں کے سیاسی اور معاشی مفادات ہیں۔ سب سے بڑی غلطی اس حقیقت کا انکار کرکے کی جا رہی ہے کہ یہ شہر آبادی کے کسی مخصوص گروہ کا شہر نہیں رہا۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کراچی آبادی کے مختلف گروہوں کا سب سے بڑا شہر بن چکا ہے۔ کراچی اردو بولنے والوں کا بھی سب سے بڑا شہر ہے اور سندھی بولنے والوں کا بھی سب سے بڑا شہر بن گیا ہے لیکن آبادی کے ان دونوں گروہوں کے درمیان کراچی کی سیاست میں پچھلے تین عشروں سے جاری کشمکش کی حرکیات بھی تبدیل ہو چکی ہیں کیونکہ کراچی اب آبادی کے دیگر گروہوں کا بھی سب سے بڑا شہر بن گیا ہے۔ اب اس نئی حقیقت کو بھی ماننا پڑے گا کہ کراچی پشتو، سرائیکی، بلوچی اور دیگر زبانیں بولنے والوں کا بھی سب سے بڑا شہر بن گیا ہے۔ اس حقیقت کی تصدیق اعداد و شمار سے کی جا سکتی ہے اور یہی کراچی کی سیاسی حرکیات میں تبدیلی کا بنیادی سبب ہے لیکن اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا جا رہا۔

دوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ آبادی کے مختلف گروہوں کے تناسب کے ساتھ ساتھ کراچی کا جغرافیہ بھی تبدیل ہو چکا ہے۔ کراچی بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ تین کروڑ سے زیادہ آبادی والے شہر میں لوگوں کی رہائشی ضروریات پورا کرنے کے لئے شعوری یا لاشعوری طور پر منصوبہ بندی نہیں کی گئی، جس اراضی پر منصوبہ بندی کے تحت ایک خوبصورت شہر بنایا جا سکتا تھا، اس اراضی پر اب تیزی سے کچی آبادیاں قائم ہو رہی ہیں۔ کچی آبادیاں قائم کرنے میں آبادی کے ان گروہوں کے با اثر افراد ملوث ہیں، جو کراچی شہر یا سندھ کی سیاست میں موثر ہیں اور مقامی یا صوبائی حکومتوں میں ان کا عمل دخل ہے۔ آبادی کے جو گروہ سیاسی طور پر منظم یا طاقتور نہیں ہیں اور حکومتوں میں ان کی نمائندگی نہیں ہے، وہ کچی آبادیوں کے سستے پلاٹس خرید کر اپنے گھر بنا رہے ہیں اور تیزی سے سیاسی طور پر منظم ہو رہے ہیں۔ ماضی میں جس طرح آبادی کے ان گروہوں کو کراچی کی سیاست میں نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، اب انہیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ اس حقیقت کا بھی ادراک نہیں کیا جا رہا۔ سیاسی جماعتوں کا کراچی میں وہی پرانا طرز سیاست ہے۔ کراچی کی سیاست پر اثر انداز ہونے والی دیگر قوتوں نے بھی اپنی اپروچ نہیں بدلی۔ وہ سب کراچی کی سیاست کے پرانے تضادات میں الجھی ہوئی ہیں۔ نئے تضادات کو وہ شعوری یا لاشعوری طور پر تسلیم ہی نہیں کرنا چاہتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کراچی کے بارے میں سیاسی اور غیرسیاسی حکمت عملیاں کارگر ثابت نہیں ہو رہیں۔ کوئی سیاسی جماعت نہ تو کراچی میں اپنی پہلے والی پوزیشن برقرار رکھ پا رہی ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی جماعت نئے سیاسی امکانات سے فائدہ اٹھا پا رہی ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ کراچی کو اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور، پشاور، اور اندرون سندھ کی نظر سے نہ دیکھا جائے۔ کراچی کو کراچی کی نظرسے ہی دیکھا جائے۔ یہ شہر پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے۔ غلط سیاسی اپروچ کی وجہ سے اس شہر کو جس طرح تباہ کیا جا رہا ہے، اس سے پاکستان کی معیشت اور سیاست پر انتہائی خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔ کراچی میں موجود آبادی کے تمام گروہوں کے وجود اور ان کے بنیادی سیاسی اور معاشی حقوق کو تسلیم کرنا ہو گا۔ اس حوالے سے کراچی میں سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں کو اپنا بیانیہ تبدیل کرنا پڑے گا۔ گروہی سیاست کراچی کے سیاسی تضادات کو مزید گہرا کر دے گی، جو تباہ کن نتائج کی حامل ہو گی۔ کراچی کی آبادی کی رہائشی اور بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایک نئے وژن کی ضرورت ہے۔ اس وژن کے مطابق منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ کراچی کی سیاست پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح نہیں ہے۔ آبادی کے مختلف گروہوں کا کراچی کی سیاست میں نیا کردار بن رہا ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی کی طرح کراچی کی سیاست کو بدامنی یا دیگر حربوں سے چلانا بھی اب ممکن نہیں رہا۔ پاکستان کے دشمن ہی کراچی کو ماضی کے طرزِ سیاست کے مطابق چلانا چاہیں گے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ کراچی کی سیاسی حرکیات تبدیل ہو چکی ہیں۔ سب کے مفاد میں یہی ہے کہ وہ اس کا ادراک کریں اور کراچی کے بارے میں نئی سیاسی اپروچ اختیار کریں۔