پروبایوٹکس: زندگی کو فروغ دینے والے جرثومے

May 03, 2021

پروبایوٹکس( "Probiotic") دراصل دو لاطینی لفظوں کا مرکب ہے۔ "Pro" جس کے معنی ہیں فروغ دینے والا اور "Biotic" یعنی "Life" زندگی کے ہیں۔

"Probiotic" زندگی کو فروغ دینے والا کوئی کیمیائی مادّہ نہیں اور نہ ہی کسی پودے یا جانور سے حاصل شدہ نامیاتی مادّہ (Biomole Cale) ہے بلکہ "Probiotic" دراصل ایک خاص قسم کے بیکٹیریا ہیں جن کا تعلق زیادہ تر ہمارے نظام ہاضمہ یعنی آنتوں سے ہوتا ہے۔

ارتقائی لحاظ سے بیکٹیریا کرئہ ارض پر تقریباً 4.2بلین سال سے لے کر آج تک موجود رہنے والا واحد جاندار ہے جب کہ اس دوران کئی اقسام کے جاندار دنیا میں آئے اور ناپید(extinct (ہوگئے اور اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ جاندار اس وقت ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں سے مطابقت نہیں رکھ سکے اور نہ ہی دوسرے جانداروں سے اپنا دفاع کرسکے لیکن بیکٹیریا کی آج تک اس کرئہ ارض پر موجودگی یہ بتاتی ہے کہ بیکٹیریا میں اپنی دفاع کے لیے غیر معمولی صلاحیت موجود ہے۔

سائنسی شواہد سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بیکٹیریا اپنی دفاع کے لیے کئی قسم کے biomolecules نامیاتی مادّوں کا اخراج کرتے ہیں اور جس کو وہ دوسرے جرثوموں کے خلاف اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر Bacterious وہ نامیاتی مادّہ ہے جو کہ اپنے آس پاس کے بیکٹیریا کو مارنے کے لیےاستعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح حال ہی میں بیکٹیریا میں دریافت ہونے والے CRISPR نامی ٹیکنالوجی ہے، جس میں بیکٹیریا اپنا ایک خاص قسم کا انزائم اپنے اوپر حملہ آور ہونے والے وائرس کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ مختلف سائنسی شواہد سے یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ بیکٹیریا نے اپنا مسکن صرف زمین ہی کو نہیں بلکہ کائنات میں موجود دوسرے سیاروں کو بھی ممکنہ طور پر بنایا ہوا ہے۔ حال ہی میں ہونے والی خلائی تحقیقات و تجربات نے خلاء میں بھی کئی قسم کے بیکٹیریا کی موجودگی کا انکشاف کیا ہے۔

پچھلی کئی دہائیوں سے یہ بات واضح ہے کہ انسانی جسم ایک انتہائی پیچیدہ ماحولیاتی نظام جو کہ ہزاروں قسم کے بیکٹیریا پر مشتمل ہوتا ہے، کے ساتھ انتہائی قریبی ہم آہنگی کے ساتھ رہتاہے، جس میں انسانی جلد، منہ، نظام تنفس اورنظام ہاضمہ شامل ہیں جہاں یہ دونوں یعنی بیکٹیریا اور انسانی جسم ایک دوسرے کےلیے فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔

بیکٹیریا کی یہ ہزاروں اقسام جو کہ انسانی جسم میں موجود ہوتی ہے، اس کو Microbiotaکہا جاتا ہے، جوکہ انسانی جسم کا نارمل فلورا بھی کہلاتے ہیں۔ یہ بیکٹیریا دراصل انسانی جسم اپنی پیدائش کے فوراً بعد ہی سے اپنے اردگرد کے ماحول سے حاصل کرلیتا ہے اور پھر زندگی بھر برقرار رکھتا ہے جب کہ انسانی جسم سے جڑے ان لاتعداد بیکٹیریا میں ہی پروبایوٹکس یعنی زندگی کی نشوونما میں مدد کرنے والے بیکٹیریا بھی شامل ہوتے ہیں۔

پروبایوٹکس بیکٹیریا اپنے میزبان انسانی یا حیوانی جسم کی Physiology یعنی جسمانیات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مثلاً یہ بیکٹیریا نظام انہضام میں نہ صرف غذائی اجزاء کے ہضم ہونے کے عمل میں حصہ لیتے ہیں بلکہ آنتوں میں angiogenesis یعنی خون کی پرانی وریدوں سے نئی وریدوں کے بننے کے عمل میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بیکٹیریا انسانی جسم کے مدافعتی نظام کی modulation اور اعصابی نظام کی نمو میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

یہ بیکٹیریا جسم میں چربی کی ذخیرہ اندوزی کے نظام کو مربوط رکھنے میں بھی شامل ہیں اور اسی لئے ان کا انسانی جسم کو خطرناک قسم کے جراثیموں سے تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں، کیوں کہ یہ بیکٹیریا اپنی جگہ کسی اور بیکٹیریا کو دینا پسند نہیں کرتے اور یوں یہ جسم میں داخل ہونے والے نئے خطرناک بیکٹیریا کو جسم سے مار بھگاتے ہیں۔ لہٰذا پروبایوٹکس نہ صرف طبی بلکہ غذائیت کے لحاظ سے بھی موثر ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آج کل پروبایوٹکس بیکٹیریا کو زراعت کے شعبے میں پودوں میں مہلک کیمیائی مادّوں مثلاً pesticidesکی جگہ استعمال کیا جارہا ہے۔

19ویں صدی کے آغاز میں metchnkoff نامی سائنسدان نے بتایا تھا کہ پروبایوٹکس دراصل انسانی جسم میں موجود انتہائی سودمند بیکٹیریاہیں۔ اب سائنسدان ایک سے زائد اقسام کے بیکٹیریا (پروبایوٹکس) کی تعداد اور صلاحیت کو بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں جو کہ انسانی جسم کے نہ صرف قوت مدافعت بڑھانے بلکہ کئی بیماریوں کے خلاف موثر ہتھیار کے طور پر بھی استعمال ہوئے ہیں۔

یہ بات سائنسی شواہد سے ثابت ہوچکی ہے کہ ہر انسان کے نظام انہضام میں ہزاروں قسم کے بیکٹیریا نارمل فلورا موجود ہوتے ہیں جو کہ اربوں کی تعداد میں ہوتے ہیں، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بیکٹیریا کل وزن کے لحاظ سے نظام ہاضمہ میں موجود مختلف نامیاتی و غیر نامیاتی اجزاء کا نصف ہوتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ ان بیکٹیریا کی تعداد انسانی جسم کی تشکیل کرنے والے خلیات اور ٹشوز کی تعداد کے مقابلے میں بھی دس گنا زیادہ ہوتے ہیں۔

ایک اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ نظام ہاضمہ سے متصل یہ نارمل فلورا جن میں بیکٹیریا کی دونوں بڑی جماعتوں یعنی gram positive اورgram negativeگروپ کے firmicutes اور bacteroids فیملی کے بیکٹیریا شامل ہیں۔ ایک خاص تناسب میں موجود ہوتے ہیں جو کہ انسانی عمر کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔مثلاًBifidobacteria نامی بیکٹیریا کی تعداد بچوں خصوصاً شیرخوار بچوں میں بہت زیادہ ہوتے ہیں ،مگر یہ تعداد بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ بوڑھے لوگوں میں بہت کم ہوجاتی ہے، جس سے ان کی قوت مدافعت بھی اثرانداز ہوتی ہے ،کیوں کہ نارمل فلورا کے تناسب میں کمی کی وجہ سے خطرناک بیکٹیریا کو موقع مل جاتا ہے اور وہ انسانی جسم کو بیمار کرنا شروع کردیتے ہیں اور ایسے میںپروبایوٹکس بیکٹیریا کا استعمال دیگر ضروری ادویات کے ہمراہ انتہائی موثر اقدام ثابت ہوتا ہے۔

پروبایوٹکس بیکٹیریا کی اس قدر اہمیت اور افادیت کی وجہ سے دنیا کے کئی سائنسدان اپنی تحقیق کا دائرہ دن بدن وسیع کررہے ہیں اور پروبایوٹکس کو نہ صرف خطرناک بیکٹیریا کے خلاف موثر ہتھیار بلکہ دیگر دوسری بیماریوں کے علاج کے طور پر بھی استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جن بیکٹیریا کو پروبایوٹکس کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، ان میں lactobacilli ,pediococcus ,bifidobacteria ,lactococcus ,saccharomyces اورstreptococcus وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں کئی قسم کے بیکٹیریا مختلف قسم کے انزائمز اور بایومولیکیولز جن میں bacterious,peptidesوغیرہ شامل ہیں، ان کا اخراج کرتے ہیں جو کہ نہ صرف بیماری پیدا کرنے والے بیکٹیریا بلکہ وہ بیکٹیریا جو کہ مختلف اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔

حالیہ تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ آنتوں میں نارمل فلورا کے تناسب میں تبدیلی ذیابیطس اور موٹاپے کی بیماری کی وجہ بن سکتی ہے اور اسی لئے سائنسدان اب ذیابیطس کے علاج کے لیے ایسے بیکٹیریا پر تجربات کررہے ہیں جو کہ آنتوں کے ہارمونز کو modulateکرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح موٹاپے کے علاج کے لیے کئی پرو بایوٹکس بیکٹیریا جن میں lactobacillus اور bifidobacteria شامل ہیں، ان کے بارے میں ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ یہ بیکٹیریا hypocholerterolemic یعنی کولیسٹرول کو کم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

sachromyces boutardii نامی پروبایوٹکس جرثومہ نہ صرف آنتوں کی سوزش کو ختم کرنے میں مدد کرتا ہے بلکہ یہ جرثومہ آنتوں کے زخم کو angiogenesis کے ذریعے ٹھیک کرنے میں بھی مدد کرتا ہے۔ یہاں بھی ان پروبایوٹکس کو supplement کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ lactobacillusنامی پروبایوٹکس بیکٹیر یا میں cholorectal cancer کو دبانے کی صلاحیت موجود ہے۔

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ انسانی جسم میں موجود نارمل فلورا کے تناسب میں کمی انسان کے مدافعتی نظام کو متاثر کرتی ہے جو کہ کئی بیماریوں بشمول کئی اقسام کی الرجی کا بھی باعث بنتی ہے۔ اس طرح پروبایوٹکس بیکٹیریا کے تناسب میں تبدیلی مدافعتی نظام یا آنتوں کی بیماری تک محدود نہیں بلکہ اس کا گہرا اثر انسانی مرکزی اعصابی نظام (central nervous system) پر بھی ہوتا ہے اور اس کے لیے آج کل ایک سائنسی اصطلاح ’’ gut brain axis‘‘ کا جملہ استعمال کیا جاتا ہے، جس میں آنت اور دماغ کے درمیان ایک مواصلاتی رابطہ قائم ہوتا ہے جو کہ دماغی نشوونما کے لیے انتہائی ضروری ہوتا ہے اور پروبایوٹکس کے تناسب میں تبدیلی سے اس مواصلاتی رابطے میں خلل واقع ہوتا ہے، جس سے بچوں اور بڑوں میں دماغی کمزوری اور نفسیاتی پریشانی میں اضافہ ہوتا ہے۔ حال ہی میں ہونے والی سائنسی تحقیق میں سائنسدانوں نے ’’autism spectrum disorder‘‘ کا شکار ہونے والے بچوں میں lactobacillus planitarum نامی بیکٹیریا کا روزانہ supplementکے طور پر استعمال کروانے سے ان کے اسکول کے ریکارڈ اور کھانے پینے کی طرف سے ان کے رویئے میں بہتری پائی گئی۔

اسی طرحbifidobacterium bifidus جو کہ aminobutyric acidنامی neurotransmitt کا اخراج کرتا ہے انسانوں میں ہونے والے اضطراب اور افسردگی کو کم کرتا ہے۔

پروبایوٹکس کی کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ سائنسدانوں کے ایک گروہ سے lactobacillusنامی پروبایوٹکس بیکٹیریا کو خلا ء بازوں میں ان کی قوت مدافعت کو بڑھانے کے لیے استعمال کرنے کے تجربات کئے ہیں۔ دراصل خلاء میں low gravity یعنی کشش تقل کی کمی یا نہ ہونے کی وجہ سے خلابازوں کی صحت پر خاصا اثر پڑتا ہے۔ مثلاً ان کی ہڈیاں کمزور ہوجاتی ہیں، حس کم ہوجاتی ہے اور ساتھ ہی آنتوں کے بیکٹیریا یعنی نارمل فلوراکے تناسب میں خاصی تبدیلی یا کمی آجاتی ہے، جس سے خلابازوں میں ڈپریشن ہوتا ہے اور ان کی قوت مدافعت میں بھی کمی آتی ہے جب کہ پروبایوٹکس ان مسائل کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

لہٰذا ناساکے سائنسدانوں کے گروہ نے lactobacillus acidophilus نامی بیکٹیریا کی کم کشش ثقل میں Grow کرنے کی صلاحیت کو خلابازوں کے مسائل کے حل کے لیے موثر قرار دیا ہے۔ اس مقصد کے لیے سائنسدان ان پروبایوٹکس کو خلابازوں کی خوراک میں شامل کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ پروبایوٹکس بیکٹیریا انسانوں اور جانوروں کی آنتوں کے علاوہ کئی اجزاء مثلاً ڈیلی پروٹین (دہی، پنیر)میں موجود ہوتا ہے۔ آج کل پروبایوٹکس دوائوں کی صورت میں بھی دستیاب ہے جب کہ صحت مند غذا اور صحت مند طرززندگی انسانی جسم میں ان بیکٹیریا کے تناسب کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

نیز یہ کہ انسانی جسم میں پروبایوٹکس بیکٹیریا کے تناسب کو قائم رکھنے کے لیے کچھ کیمیائی اجزاء کا بھی استعمال کیا جاتا ہے جن کو پرو بایوٹکس کہا جاتا ہے۔ پروبایوٹکس کی افادیت کے پیش نظر یہ کہنا درست ہوگا کہ اس شعبے میں مزید تحقیق کی بہت ضرورت ہے، تاکہ پروبایوٹکس کو انسانوں کے لیے مزید مفید بنایا جاسکے۔