آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

June 15, 2021

آپ بتا سکتے ہیں کہ پاکستان میں جادوگروں اور جادوگرنیوں کی تعداد کتنی ہوگی؟ اندازاً؟ نہیں بتا سکتے۔ نو پرابلم۔ یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ پاکستان میں جھوٹے سچے اعداد و شمار کی رکھوالی کرنے والا ادارہ بھی آپ کو بتا سکتا کہ پاکستان میں جادوگروں اور جادوگرنیوں کی تعداد کتنی ہے۔ ایک بات کی وضاحت کردوں کہ جادوگروں سے میری مراد ایسے جادوگر نہیں ہیں جو اسکول کے بچوں کو کرتب دکھاتے ہیں۔ آپ کی آنکھوں کے سامنے میز پر بیٹھے ہوئے خرگوش پر کالا کپڑا ڈالتے ہیں۔ کوئی منتر شنتر پھونکتے ہیں۔ اور جب خرگوش پر پڑا ہوا کالا کپڑا ہٹاتے ہیں تب اندر سے کبوتر نکل آتا ہے۔ کئی لوگ موسمیات کے ماہروں کو بھی جادوگر سمجھتے ہیں مگر اس کا انحصار ماہرین کی پیشگوئی پر ہوتا ہے۔ پرسوں موسلا دھار بارش ہوگی اور وہ بھی گرج چمک کے ساتھ۔ اگر پیشگوئی سچ ثابت ہوئی اور گرج چمک کے ساتھ برسات نے آپ کو جل تھل کا منظر دکھا دیا تو پھر موسمیات کے ماہر جادو گر، سچے، اور کھرے۔ اگر برسات کی بجائے آپ سورج کو اپنے سر پر سوا نیزے پر محسوس کرنے لگیں تو پھر ماہر موسمیات جھوٹے۔ وہ جادوگر نہیں ہوتے۔ وہ غریب جنتا کو چکر دیتے ہیں۔ لوگ جادوگر اس کو مانتے ہیں جس کے ساتھ اگر آپ کی ان بن ہو جائے تو وہ سرزنش پر اتر آتا ہے۔ اس رات آپ سوتے تواپنے گھر پر، اپنے بیڈروم میں ہیں مگر صبح جب آپ کی آنکھ کھلتی ہے، آپ اپنے گھر کے باہر ، فٹ پاتھ پر سوئے ہوتے ہیں۔ تب آپ کو پتہ چل جاتا ہے کہ جادوگر سے پنگا لینے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ اس لئے ہمارے ملک میں خواندہ ناخواندہ سیانے ایانے جادوگروں سے دور دور رہنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔

کوئی نہیں جانتا کہ پاکستان میں جادوگروں اور جادوگرنیوں کی تعداد کتنی ہے۔ سنیاسی باوائوں اور جادو منتر جاننے والے جادوگروں کی روزِ اول سے ہمارے ہاں بہتات رہی ہے۔ سیاسی، سماجی، معاشی افراتفری کی وجہ سے ان کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوتارہا ہے۔ سیاسی، سماجی، معاشی اتھل پچھاڑ کی وجہ سے ہمارے یہاں ایسی خواتین کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے جو پہلے نئے سال کے ساتھ ٹیلی وژن پر دکھائی دیتی تھیں اور نامور ہستیوں کا سال کیسے گزرے گا، اسکی پیشگوئی کرتی تھیں مگر اب وہ اپنے موروثی کام سے آگے نکل گئی ہیں۔ آپ کو پتہ تب چلے گا جب ایسی کسی خاتون سے آپ کا واسطہ پڑے گا۔ کالے، پیلے، نیلے علموں پر عبور حاصل کر چکی ہوتی ہیں۔ غیبات کی اچھی خاصی تعداد ان کے قبضے میں ہوتی ہے۔ معاشرے میں اپنے لئے اعلیٰ مقام حاصل کر چکی ہوتی ہیں۔ سیاستدان رہنمائی حاصل کرنے کے لئے ان کے پیچھے مارے مارے پھرتے رہتے ہیں۔ ہاتھ کی لکیریں دیکھنے والیاں اب قسمت کی لکیریں کھینچنے لگی ہیں۔ ٹارزن بھائی کی تحقیقی کھوجنا کا جادوگروں، جادوگرنیوں، تعویذ، گنڈے، ٹونے کرنے اور جنات کو قبضہ میں رکھنے والوں اور رکھنے والیوں نے مثبت نوٹس لے لیا ہے۔ ان کو قطعی احساس نہیں تھا کہ وہ کتنے طاقتور اور شکتی شالی ہیں۔ ٹارزن بھائی کی کھوجنا کا کمال ہے کہ بہتر برس سے اپنی بےپناہ طاقت سے بےخبر رہنے والے اب اپنی غیر معمولی طاقت اور قوت سے باخبر ہو چکے ہیں۔ وہ اپنی ہی حکومتیں گرانے اور بنانے تک محدود نہیں ہیں۔ وہ ملکر اسرائیل جیسے بالشت بھرکے دس ممالک کو تہس نہس کرسکتے ہیں۔ چونکہ فی الحال مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی ہے۔ اسرائیل کی توپیں خاموش ہیں۔ ہمارے جادوگروں اور جادوگرنیوں نے اسرائیل کو تہس نہس کرنے کا ارادہ ملتوی کردیا ہے۔ بہرحال روڈ راستوں، گلی کوچوں میں اپنی ہی املاک کی توڑ پھوڑ کرکے اسرائیل کے خلاف احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ اسرائیل کو معلوم ہونا چاہئے کہ طیش میں آکر اگر ہم اپنابہت کچھ بگاڑ سکتے ہیں، تو طیش میں آکر مدمقابل کا بھی بہت کچھ بگاڑ سکتے ہیں۔ٹارزن بھائی کی تحقیق کے اچھے اور مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔ ہمارے جادوگروں نے محسوس کر لیا ہے کہ بکھری ہوئی قوتوں سے ہم خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کر سکتے۔ ہاری ہوئی بازی پھر سے جیت نہیں سکتے مگر اجتماعی قوتوں سے ہم ہمالیہ کو سرنگوں کر سکتے ہیں۔ دنیا پر دبدبا قائم کر سکتے ہیں۔ اسرائیل جیسے شیطانی ممالک کو راہِ راست پر لاسکتے ہیں۔ ہمارے جادوگروں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ مل کر وہ ملک کو اقتصادی،مالی، معاشی اور سیاسی بحران سے نکال لائیں گے۔ ہم اقتصادی مالی اور معاشی طور پر خود مختار ہو جائیں گے۔ قرض لینے کے بجائے ہم غریب مالک کو قرض دیں گے ۔ ان کی مالی امداد کریں گے۔ ملک کی سیاسی صورتحال بہتر کرنے کے لئے ہمارے جادوگر پڑھے لکھے اور ان پڑھوں کو اسمبلیوں کارخ کرنے نہیں دیں گے۔

آپ سوچ رہے ہوںگے کہ کیا یہ سب کچھ ممکن ہے؟ ممکن ہے میرے بھائی۔ یہ ہمارے جادوگروں کا متفقہ فیصلہ ہے۔ یہ آپ کا یا میرا فیصلہ نہیں ہے۔ ہمارے جادوگر مل کر ناممکن کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ ایک ایکڑ سے ایک ہزارٹن گندم، ایک ہزار ٹن چاول پیدا کرسکتے ہیں۔ خالی خزانے بھر سکتے ہیں۔ آپ کو اور مجھے صرف اتنا کرنا ہے کہ ہمیں صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دینا ہے۔