کیا بجٹ عوامی توقعات پر پورا اُتر سکے گا؟

June 17, 2021

عمران حکومت نے اپنا تیسرا بجٹپیش کر دیا مگر یہ بجٹعوام کی تواقعات اور خوہشات پوری کرتے دکھا ئی نہیںدیتا ، وزیر اعظم عمران خان ان کی کابینہ کے ارکان اور سرکاری ترجمانوںنے معیشت کی مضبوطی ،زر مبادلہ کے ذخائر میںزبر دست اضافہ ،ٹیکسوںمیںتاریخی ریکوری ،گندم ،چاول ،گنے اور دیگر زرعی اجناس میں کئی گناہ اضافہ کی خوشخبریاں سنائی معاشی حالات بہتر کرنے کے اعلانات حقیقت پر مبنی تھے جن کی وجہ سے عام آدمی اور غریبوںکی توقعات میں زبر دست اضافہ ہو گیا۔

عام لوگوں کا خیال تھا اڑھائی سال مہنگائی کی چکی میں پسنے کے بعد اب ہمیں حکومت خاصہ ریلیف دے گی سرکاری ملازمین کی تواقعات زیادہ تھیں کہ حکومت تنخواہوںاور پنشن میں کم سے کم 25 فیصد اضافہ کرے گی مگر حکومت نے صرف 10 فیصد اضافہ کیا جس کی وجہ سے سرکاری ملازمین میںبے چینی پیدا ہو گئی ہے اور اسلام آباد میںسرکاری ملازمین کے مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔

بجٹمیں اگرچہ چھوٹے لوگوں کیلئے 5 لاکھ روپے روز گار کیلئے قرضہ ، مکانات کی تعمیر کیلئے 20 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ، زرعی آلات ، الیکٹرک کاروں ، خوردنی تیل ، گھی وغیرہ پر ٹیکسوںکی چھوٹدینے کا عندیہ دیا گیا ہے ،تاہم موبائیل فون اور انٹر نیٹکے چارجز بڑھا دیئے گئے ، غرض یہ کہ موجودہ بجٹبھی ماضی کی طرح ادادو شمار کا گورکھ دھندہ لگ رہا ہے ایک شعبے میں چھوٹدے کر دوسرے شعبوں میں ٹیکس لگا کر یہ رعایت واپس لے لی گئی ، ابھی پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میںاضافہ کرنا پڑے گا کیونکہ آئی ایم ایف کا دبائو ہے کہ بجلی کی قیمتوںمیں اضافہ کیا جائے فی الحال آئی ایم ایف کو روکا گیا ہے کہ فوری طور پر ہم بجلی کی قیمتیںنہیںبڑھا سکتے جبکہ وزیر خزانہ شوکت ترین نے پٹرول کی قیمتوںمیں اضافہ کا اعلان کر دیا ہے۔

اگر پٹرول اور بجلی کی قیمتوںمیں اضافہ ہوتا ہے تو پھر مہنگائی میں کمی نہیںبلکہ اضافہ ہو گاجو عوام کیلئے ناقابل برداشت ہے عمران خان حکومت خوش قسمت ہے کہ عوام نے بڑے صبر و تحمل سےکمر توڑمہنگائی کو برداشت کیا، اور اپوزیشن کی کسی بھی کال پر کان نہیںدھرے اور وہ اپوزیشن کی تمام تر کوششوں کے باوجود سڑکوںپر نہیںآئے ، مگر اس صبر و تحمل کا انہیں پھل نہیں ملا ،دوسری طر ف اگر اپوزیشن جماعتوں کے رویہ کا تجزیہ کیا جائے تو اپوزیشن جماعتیں بھی عوام کے مسائل پر توجہ دینے کے بجائے اقتدار میں آنے کے راستے ڈھونڈتی رہی ہے ، اپوزیشن عوامی مسائل پر توجہ دینے کے برعکس آپس میں دست و گریباں رہیں گیارہ جماعتوںپر مشتمل پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم )تو بنا لیا مگر یہ آپس کی لڑائیوں کی وجہ سے اتحاد میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔

دو بڑی سیاسی جماعتوںمیںاختلافات شروع ہو گئے اور وہ آپس میںہی لڑنا شرو ع ہو گئی اور ایک دوسرے کے خلاف الزامات لگانے شروع کر دیئے ، دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن)کے درمیان آنکھ مچولی جاری ہے ایک دن ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑکرتے ہیںاور دوسرے دن گھی شکر ہونے کا تاثر دیتے ہیں، دونوںبڑی جماعتوںکے اس طرز عمل نے عوام کو مایوس کیا ہے یہی وجہ ہے کہ عوام سڑکوں پر آنے کیلئے تیار نہیں ہے مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیںکہ وہ تحریک انصاف کی حکومت سے بہت خوش ہیں۔

اگر عمران حکومت نے مڈل کلاس اور غریب طبقے کی محرومیوںپر توجہ نہیںدی بے روز گاری مہنگائی پر کنٹرول نہیںکیا تو ایک خوفناک بھونچال آسکتا ہے جس سے حکومت کیلئے کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گاعوام اب یہ بات سننے کیلئے تیار نہیںکہ ملک کی معاشی حالت بہت خراب ہے حکومت نے خود معاشی استحکام کی خوشخبریاں سنائی ہیںاب وہ کوئی دوسری بات سننے کیلئے تیار نہیںہیںعوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔

وزیر اعظم صاحب کو مرکز اور جن صوبوں میں ان کی حکومت ہے وہاںمہنگائی اور بے روز گاری پر کنٹرول کرنا ہو گا ، ابھی شدید گرمی میںلوڈشیڈنگ کا عذاب بھی عوام کے سر پر منڈلا رہا ہے جبکہ کورونا کی کمی کے بعد سکول تو کھول دیئے گئے ہیںمگر لوڈشیڈنگ کی وجہ سے کلاس رومز میںپنکھے نہیں،پینے کا پانی نہیں، بجے بڑی تعداد میں بے ہوش ہور ہے ہیں، وفاقی دارلحکومت میں چند ماہ قبل ہزاروں سرکاری ملازمین نے احتجاج کیا تھا اب پھر سرکاری ملازمین سڑکوں پر آرہے ہیںاور اس میں عوام کا جم غفیر بھی شامل ہو سکتا ہے اور حکومت کے خلاف ایک تحریک کا ماحول بن سکتا ہے۔

در حقیقت شیشے کے گھر وں میںبیٹھے بیورو کریٹس کو اندازہ نہیں ہو سکتا کہ عوام کی کیا حالت ہے ، پاکستان میںجو بھی وزیر خزانہ ،آئی ایم ایف ،عالمی بنک ، اور دوسرے غیر ملکی بنکوںسے آتا ہے اسے پاکستان کی غریب عوام کی نہیںبلکہ آئی ایم ایف کی قسط اکھٹی کرنے کی فکر ہوتی ہے ، وزیر اعظم عمران صاحب اکثر یہ کہتے ہیںکہ مجھے مہنگائی کےبارے میں سوچ سوچ کر راتوں کو نیند نہیں آتی اب خالی ایسی باتیں کہہ دینا کافی نہیں ہو گا بلکہ انتظامی مشینری کو تیز کرنا اور خود ساختہ مہنگائی کرنے والوںکے خلاف شکنجہ کسنا ہو گا ، بجٹمیں2020-2021 کے ریونیو ہدف کو بڑھا کر مزید 1230 ارب روپے اضافی ریونیو کا ہد ف مقرر کیا گیا ہے۔

تاجروں اور صنعت کاروںسے نئے ہدف کے مطابق جب ٹیکس وصول کیا جائے گا تو اس کے اثرات بھی آخر کار عام آدمی پر پڑیںگے بجٹمیںزراعت کے شعبے کیلئے مراعات اور تین بڑے ڈیموںداسوں دیامر ، بھاشہ اور مہمند ڈیم کیلئے 91 ارب روپے مختص کئے گئے ہیںجو بہت بڑا اور احسن اقدام ہیں ڈیموںکی تعمیر وقت کی اہم ضرور ت ہے ڈیموںکی کمی کا احساس در حقیقت سابق چیفجسٹس سپریم کورٹثاقب نثار صاحب نے دلایا تھا اور ایک تحریک شروع کی تھی ڈیم کی تعمیر کیلئے عوام سے عطیات بھی لئے تھے ، کچھ پیسہ بھی جمع ہوا تھا جو غالباًسپریم کورٹکے اکائونٹس میں موجود ہے ، وزیر اعظم عمران خان نے بھی ڈیموں کی تعمیر کیلئے عملی اقدامات کئے ہیں، جو قابل تحسین ہیں۔

اگر ہمارے ملک میں چند سالوںمیںتین ڈیم تعمیر ہو گئے تو ملک میںزراعی انقلاب برپا ہو سکتا ہے ، موجودہ حکومت کو یہ کریڈ ٹ جاتا ہے کہ اس نے موجودہ سیشن میں بڑی تیزی کے ساتھ کچھ اہم قانون سازی بھی کی ہے جس میںآئندہ انتخابات نئے طریقہ کار کے مطابق کرانے کا قانون اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوںکو ووٹ کا حق دینے کا قانون منظور کیا کم از کم 15 سے20 نئے قوانین کی منظوری دی گئی اور اپوزیشن کی عدم موجودگی کا خوب فائدہ اٹھایا گیا۔

بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوںنے بھی اپنے وطن سے محبت اور عقیدت کا حق ادا کرتے ہوئے زر مبادلہ بھیجنے کا ریکارڈتوڑ دیا ہے اور ہر ماہ دو ارب ڈالر پاکستان بھیجے ہیںتارکین وطن کو ووٹ کا حق دینے سے ان کی نہ صر ف حوصلہ افزائی ہو گی بلکہ انہیں اپنی پسند کی حکومت منتخب کرنے کا پہلی بار موقع ملے گا۔