معروف ناول نگار ’’موراساکی شیکیبو‘‘

October 18, 2021

عالمی ادب کے معروف ترین مباحث میں سے ایک بحث یہ بھی رہی ہے کہ دنیا میں ناول سب سے پہلے کہاں اور کس زبان میں لکھا گیا۔ ایک عام تصور یہ تھا، دنیا میں ناول نگاری کی ابتدا مغرب بالخصوص یورپ سے ہوئی، مگر حالیہ تاریخ اپنے تمام تر مستند حوالوں اور جدید تحقیق کی مدد سے بتاتی ہے کہ دنیا کا سب سے پہلا ناول مشرق میں لکھا گیا۔ یہ اُبھرتے سورج کی سرزمین ’’جاپان‘‘ ہے، جہاں ایک ہزار سال سے بھی پہلے ایک خاتون ناول نگار ’’موراساکی شیکیبو‘‘ نے جاپانی زبان میں دنیا کا پہلا ناول تخلیق کیا تھا۔

دنیا کا پہلا ناول، جس کا نام’’’گینجی مونوگتاری‘‘ یعنی’’گینجی کی کہانی‘‘ ہے۔ ’’موراساکی شیکیبو‘‘ نے اس ناول کو گیارہویں صدی کے ابتدائی برسوں میں قلم بند کیا تھا۔ یہ ناول خیالی کہانی اور کرداروں پر مبنی ہے، س ناول میں جاپانی شاہنشاہ، اس کا شہزادہ’’گینجی‘‘ اور اس کے پوتے’’کائورو‘‘ کی زندگی کا مفصل نقشہ پیش کیا گیا ہے۔

’’گینجی کی کہانی‘‘ نے جاپانی ثقافت، مقامی اور عالمی ادب پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے، دنیا میں کلاسیکی ناول نگاری کی ابتدا جاپان سے ہوئی، جس کا منہ بولتا ثبوت یہ ناول ہے۔ دنیا کی 33زبانوں میں یہ ناول بشمول اردو منتقل کیا جاچکا ہے۔

ناول کی مصنفہ’’موراساکی شیکیبو‘‘ کا تعلق اُس وقت کے طبقۂ اشرافیہ سے تھا۔ مصنفہ جاپانی دربار سے وابستہ ہوئیں، تو ملکہ کی نائب کے طور پر ان کا تقرر ہوا۔ ان کے حالات زندگی کازیادہ علم نہیں ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق، ان کی پیدائش کا سال 973 عیسوی سے 978 عیسوی کے درمیان کا کوئی برس ہے، جبکہ وفات کا سال 1014 سے 1031 کا درمیانی عرصہ ہے۔

’’موراساکی شیکیبو‘‘ نے جب’’گینجی کی کہانی‘‘ ناول لکھا، تو جاپان میں وہ زمانہ تھا، جب دربار میں چینی اور جاپانی، دونوں زبانیں سرکاری طور پر استعمال ہوتی تھیں۔ چینی زبان پر دسترس کو ایک باکمال ہنر تسلیم کیا جاتا تھا۔ ناول نگار کو چینی زبان پر حیرت انگیز عبور تھا۔ کاغذ کی دستیابی بھی اس زمانے میں جوئے شیر لانے کے مترادف تھی، مصنفہ چونکہ دربار سے وابستہ تھیں، اس لیے ان کو کاغذ کی فراہمی ممکن بنائی گئی۔ اس ناول میں اُس وقت کے شہنشاہ، سرکار، عوام، اشرافیہ کے معاملات اور احساسات کے نشیب و فراز کا عکس بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔

اردو ادب کی پہلی داستان ’’سب رس‘‘جس کے مصنف ملاوجہی ہیں اور دیگر اردو داستانیں، جن میں باغ و بہار، داستان امیر حمزہ، فسانہ عجائب وغیرہ ہیں، ان سب کو اس جاپانی زبان میں لکھے گئے داستان نما طرز کے ناول ’’گینجی کی کہانی‘‘کے مد مقابل دیکھا جاسکتا ہے۔

جاپان کے اس ناول پر چینی ثقافت کے گہرے اثرات ہمیں اردو کی داستان نگاری میں بھی دکھائی دیتے ہیں، جس کی ایک مثال’’نگارخانہ ٔ چین‘‘ داستان ہے۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ داستان ہو، چاہے ناول اور کہانی کی دیگر تمام اساطیر، سب مشرق سے نکل کر عالمی ادب میں شامل ہوئیں۔

’’گینجی کی کہانی‘‘ کو دنیا کا پہلا ناول ہونے کا اعزاز حاصل ہے، یہ ناول اپنے پلاٹ میں بھی بہت دلچسپ ہے۔ اس کی کہانی صدیوں پرانے رسم و رواج، رہن سہن اور خاندانی اقدار کو دیکھنے کا ایک روزن ہے۔ معروف جاپانی فلم ساز ’’آکیرا کورو ساوا‘‘ نے بھی اس ناول کو اپنی پسندیدہ ترین کتاب قرار دیا۔ جاپان کے پہلے نوبیل انعام یافتہ ادیب’’یاسوناری کاواباتا‘‘ نے بھی نوبیل انعام حاصل کرنے کی تقریب کے موقع پر، اپنے کلیدی خطاب میں اس کا تذکرہ کیا تھا۔ ہر جاپانی شہری زمانہ ٔ طالب علمی میں یہ کہانی اور اس کے اقتباسات، اسکول کے نصاب میں بھی پڑھتا ہے۔

ناول’’گینجی مونوگتاری‘‘ دولاکھ سے زائد جملوں پر مبنی ہے۔ ایک ادبی روایت کے مطابق، اس کہانی کے آٹھ سو سے زیادہ جاپانی شاعری کی صنف سخن ’’واکا‘‘ کے اشعار کہانی میں موجود ہیں۔ 1971 میں ہندوستان میں پروفیسر احتشام حسین نے اس ناول کے ابتدائی چند ابواب کی تلخیص لکھی، مگر باقاعدہ ترجمہ ندارد تھا۔ 2021 میں پہلی بار پاکستان سے، یہ ناول اردو زبان میں شائع ہوا ہے، اس کے اردو مترجم باقر نقوی ہیں، جبکہ تحقیق و تدوین راقم نے کی اور اس کے سیکڑوں حواشی بھی قلم بند کیے ہیں،جن سے ناول کے تاریخی پس منظر سے شناسائی ہوتی ہے۔

یہ اردو زبان میں اس ناول کا پہلا اورمستند اردو ترجمہ ہے، جو تمام پاکستانیوں کے لیے بھی قابل فخر بات ہے۔ اس ناول کو پاکستان جاپان لٹریچر فورم کے تعاون سے شائع کیاگیا ہے۔ دونوں ممالک کے اس ادبی فورم کے سرپرست اعلیٰ پاکستان میں جاپانی سفیر’’کونینوری متسودہ‘‘ اور سرپرست، پاکستان میں جاپان کے قونصل جنرل’’توشی کازو ایسومورا‘‘ ہیں۔

اس ناول پر جاپان میں کئی فلمیں بن چکی ہیں۔ ریڈیو، ٹیلی وژن اور تھیٹر میں بھی اس کہانی کو پیش کیاجاچکا ہے۔ ناول کے تناظر میں جاپانی شہر کیوٹو میں ایک میوزم بھی بنایا گیا ہے، جبکہ دوہزار ین کرنسی نوٹ پر اس ناول نگار کی خیالی تصویر اور کرداروں کے عکس بھی شائع کیے گئے ہیں۔ اس ناول پر بننے والی فلم جاپان میں’’سینن نونازو‘‘ یعنی ’’ہزار سال کی پہیلی‘‘ کے عنوان سے بنائی گئی ہے۔

فلم کے ہدایتکار ’’یاسوتسورو ہاشی‘‘ ہیں جب کہ اس فلم کا اسکرپٹ’’ازومی کاواساکی‘‘ اور ’’یوکیکوتاکایاما‘‘ نے لکھا ہے۔ 2011 میں نمائش کے لیے پیش کی جانے والی اس فلم کو باکس آفس پرتو کامیابی حاصل ہوئی، مگر یہ فلم اتنے بڑے اور تاریخی ناول سے انصاف نہیں کرپائی۔