پولیس اور حساس اداروں پر مشتمل جے آئی ٹی آج سے انتظار احمد کےقتل کی تحقیقات شروع کرےگی، ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کہتےہیں انتظار کو روکنے والے اہل کار نہ وردی میں تھے نہ ہی سرکاری گاڑیوں میں، انتظار پر پہلے بلال اور پھر دانیال نامی اہلکار نے فائرنگ کی، کیس میں ایس ایس پی مقدس حیدر کے کردار کا بھی جائزہ لیا جائےگا۔
انتظار احمد قتل کیس کے تفتیشی افسر ڈی آئی جی سی ٹی عامر فاروقی نے کہا ہے کہ حقائق جاننے کیلئے جے آئی ٹی بنادی گئی ہے جو پولیس، رینجرز ،سی ٹی ڈی اور حساس اداروں کے نمائندوں پر مشتمل ہوگی۔جے آئی ٹی کا پہلا اجلاس آج صبح گیارہ بجے ایس ایس پی سی سی ٹی ڈی کے دفتر میں ہوگا۔
واقعے کی مکمل سی سی ٹی وی وڈیوڈی آئی جی سی ٹی ڈی کے دفتر میں مقتول کے والد کو دکھا دی گئی ہے۔
تحقیقاتی حکام کا کہنا ہے کہ وڈیو 10منٹ کی ہےجس میں انتظار کو پہلے روکا، پھر جانے کا اشارہ کیا، انتظار نے گاڑی ریورس کر کے نکالنا چاہی تو ایک بار پھر رکنے کا اشارہ کیا گیا، اسی دوران اچانک فائرنگ شروع کردی گئی، انتظار کی گاڑی پر فائرنگ کا آغاز کرنے والا پولیس اہلکاربلال ہے ۔
فائرنگ کے بعد انتظار کی گاڑی بے قابو ہوکر فٹ ہاتھ پر چڑھی اور اُتر کر روڈ کی دوسری جانب ایک گٹر میں دھنس کر رُک گئی۔
فائرنگ کے 20 سیکنڈز بعد پولیس اہلکارفرار ہو جاتے ہیں، تحقیقاتی حکام کے مطابق گاڑی رکنے کے بعد مدیحہ کیانی گاڑی سے چیختی ہوئی اترتی ہے اور رکشے میں بیٹھ کر چلی جاتی ہے۔
گاڑی روکنے سے لے کر فائرنگ تک کا دورانیہ ڈیڑھ منٹ ہے۔
تحقیقاتی حکام کے مطابق پولیس اہلکاروں بلال اوردانیال کا بیان ریکارڈ کرلیاگیا،دانیال کے پستول سے12 اوربلال کے پستول سے6فائر ہوئے۔
بلال کے بیان کے مطابق جب گاڑی جانے لگی تودوبارہ روکنے کی آوازآئی،انتظار نے گاڑی آگے بڑھائی تولگاوہ فرارہورہاہےجس پر اس نے فائرنگ کردی۔
تحقیقاتی حکام کے مطابق انتظار کو لگنے والی گولی بلال کے پستول سے چلائی گئی۔