ضلعی ڈویلپمنٹ کمیٹی کی میٹنگ میں جو ڈپٹی کمشنر آفس ملتان میں ہوئی ، پہلی بار وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا اپنے سیاسی حریف سے سامنا ہوا ، جس نے انہیں 2018ء کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر شکست دی تھی ، گزشتہ تین برسوں کے عرصہ میں یہ دونوں عوامی نمائندے کبھی ایک دوسرے کے سامنے نہیں آئے ،حالانکہ 2018ء کے الیکشن سے پہلے سلمان نعیم ،شاہ محمودقریشی کے کی ڈرائیونگ سیٹ پر ہوتے تھے اور ان کے قومی حلقہ انتخاب میں ان کا ساتھ دیتے تھے ،مگر پھر ایک وقت ایسا آیا کہ جب دونوں کی راہیں جدا ہوگئیں اور دونوں سیاسی حریف کے طور پر ایک دوسرے کے مقابل آکھڑے ہوئے۔
آج شاہ محمود قریشی اگرپیچھے مڑ کر دیکھتے ہوں گے ،تو انہیں اپنے اس فیصلہ پر پچھتاوا ضرور ہوتا ہوگا ، جوانہوں نے صوبائی حلقہ 217میں سلمان نعیم کو ٹکٹ نہ دے کرکیا اور ان کی جگہ خود انتخاب میں حصہ لیا ،اگرسلمان نعیم ان کی قومی اسمبلی کی نشست کے نیچے ان کے دھڑے میں شامل ہوکر انتخاب لڑتے ،تو آج شاہ محمود قریشی کو اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے مختلف چیلنجز کا سامنا نہ ہوتا ،کیونکہ تین سال بعد جب سلمان نعیم سپریم کورٹ کے حکم سے اپنی صوبائی نشست پر بحال ہوئے ہیں ، تو ان کی حلقہ میں پوزیشن پہلے سے زیادہ مضبوط نظر آتی ہے۔
پھر یہ خیال بھی کیا جاتا تھا کہ وہ شاید جہانگیر ترین گروپ میں ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی میں فعال کردار اد کرنے کے قابل نہیں رہیں گے ، مگرانہوں نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے ملاقات کرکے نہ صرف تحریک انصاف میں اپنی رکنیت کو بحال کردیا ،بلکہ اپنے حلقہ کے لئے ترقیاتی فنڈز اور منصوبے بھی حاصل کئے ،یادر ہے کہ اس صوبائی حلقہ کو جو درحقیقت شاہ محمود قریشی کے قومی اسمبلی کے حلقہ 156کا حصہ ہے ،ان سالوں میں بری طرح نظرانداز کیا گیا ،شاہ محمود قریشی اس حلقہ کے دورے پر ضرورآتے تھے ،مگروہ یہاں ترقیاتی کام کرانے کے روادار نہیں رہے ، جس کی وجہ سے یہ حلقہ مسائل کی آماہ جگا بنا رہا۔
سیاسی ذرائع کے مطابق شاہ محمود قریشی اپنے اس عمل سے حلقہ کے عوام کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ انہوں نے سلمان نعیم کو منتخب کرکے جو غلطی کی ہے ،اس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑے گا ،مگراس دوران سلمان نعیم خاموش ہوکر نہیں بیٹھے رہے اور اپنے حلقہ میں سرگرم نظرآئے ،آج یہ صورتحال ہے کہ سلمان نعیم ،شاہ محمود قریشی کے ساتھ بیٹھ کر ضلع کے ترقیاتی منصوبوں کا فیصلہ کررہے ہیں ،اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شاہ محمود قریشی کے لئے اب اس نوجوان کا سیاسی سطح پر مقابلہ کرنا کتنا مشکل ہوگیا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے ملتا ن میں اپنے قیام کے دوران ایک بار پھر اپوزیشن پر شدید تنقید کی اور کہا کہ اپوزیشن حکومت گرانے کے جو خواب دیکھ رہی ہے ،وہ کبھی پورے نہیں ہوں گے ،بچوں جیسی اپوزیشن عمران خان کی مضبوط حکومت کو نہیں گراسکتی ،اس دوران انہوں نے ایک ایسی بات بھی کی جس پر خاصی چہ مگوئیاں ہوئیں ،انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے عوام کو 30 سال تک لوٹا ہے ، جبکہ ان تیس برسوں میں سے 22 سال سے زائد تو شاہ محمود قریشی خودان دونوں جماعتوں کا حصہ رہے ہیں ،اگر جماعتوں نے پاکستان کو لوٹا ہے ،تو پھر شاہ محمود قریشی بھی اس میں ان کے حصہ دار ہیں ،مگراس حقیقت کو وہ تسلیم نہیں کرتے ،کیونکہ پاکستان میں سیاست کا یہی دستور ہے۔
جب آپ ایک جماعت کو چھوڑ کر دوسری جماعت میں شامل ہوجاتے ہیں ،تو اپنے ماضی کو بھلا دیتے ہیں ،جیسے دیگر وزراء بھی اپوزیشن پر تنقید تو کرتے ہیں ،مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک زمانے میں وہ خودان جماعتوں کا حصہ رہے ہیں ۔ ادھر جہانگیر ترین نے کہا ہے کہ وہ تحریک انصاف کا حصہ ہیں اور حصہ رہیں گے ،تحریک انصاف ان کی جماعت ہے اوروہ اپنی جماعت کو نہیں چھوڑ سکتے ،یہ بات انہوں نے ایک طویل خاموشی کے بعد گزشتہ دنوں لودھراں میں صحافیوں سے ملاقات کے دوران کہی ،انہوں نے کہا کہ وہ سیاست میں بھرپور کردار ادا کرنے کے لئے تیارہیں اور تحریک انصاف میں ان کا گروپ اپنی جماعت کے لئے کوئی بھی قربانی دینے سے گریز نہیں کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ یہ خواب دیکھ رہے ہیں کہ وہ تحریک انصاف سے علیحدہ ہوجائیں گے ،وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ،ان کا اشارہ غالباً شاہ محمود قریشی گروپ کی طرف تھا ،جن کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ جہانگیر ترین کسی طرح تحریک انصاف سے دور ہوجائیں ،ماضی قریب میں جو جہانگیر ترین کے ساتھ ہوا ،جہانگیر ترین ہم خیال گروپ کے لوگوں نے اس کے ڈانڈے بھی پارٹی کے اندر موجود کچھ لوگوں کی اس مخاصمت سے ملائے ،جو وہ جہانگیرترین سے رکھتے ہیں ،یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ جنوبی پنجاب میں جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی نے حکومت بننے کے فوراً بعد اپنے اپنے گروپ استوار کرلئے ،مگر شاہ محمود قریشی اس لئے آگے نکل گئے کہ جہانگیر ترین عدالت سے نااہل قرار دے دیئے گئے۔
انہوں نے جہانگیر ترین کی نااہلی کے بعد ان کی تحریک انصاف میں فعالیت کو ختم کرنے کے لئے ہرممکن کوششیں کیں ، حتی کہ کابینہ اجلاسوں میں جہانگیرترین کے بیٹھنے کو بھی انہوں نے تنقید کا نشانہ بنایا ، یہ گویا عمران خان پر ایک عدم اعتماد تھا ،جو انہوں نے ’’بغض جہانگیرترین ‘‘کی وجہ سے کیا ،ان کے اس اعتراض کے بعد جہانگیر ترین کو کابینہ اجلاسوں سے دور کردیا گیا ،آگے چل کر جہانگیر ترین کے خلاف مختلف کیسوں اور انکوائریوں کا پینڈورا باکس بھی کھل گیا ،تاہم جہانگیر ترین اپنی سیاسی بصیرت اور متحد گروپ کی وجہ سے اس بحران سے نکلنے میں کامیاب رہے اور آج وہ اس نہج پر ہیں کہ نہ صرف سیا ست میں اپنا فعال کردار ادا کررہے ہیں ،بلکہ انہوں نے مخالفین کو یہ واضح پیغام بھی دے دیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کو کسی نہیں چھوڑیں گے ،کیونکہ یہ ان کی اپنی جماعت ہے ۔