بلوچستان کی سیاسی دھینگا مشتی میں تحریکِ عدم اعتماد کا اونٹ جس کروٹ بھی بیٹھے بہرحال یہ طے ہو گیا ہے کہ حالیہ بحران میں آسانی سے چیزوں کو سمیٹنا اور ناراض ارکان کو منانا آسان نہیں رہا۔ یہ کام اگراتنا ہی آسان ہوتا تو صادق سنجرانی کے پہلے دورہ کوئٹہ کے موقع پر ہی معاملات درست ہو جاتے اور جام کمال کے سر پرتحریک عدم اعتماد کی لٹکتی ہوئی تلوار کب کی میان میں جا چکی ہوتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دنیا نے دیکھا کہ کوئٹہ اور اسلام آباد کے درمیان چارٹرڈ طیاروں کی فلائٹس مسلسل بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ کبھی عبدالقدوس بزنجو اور ان کے ساتھی اسلام آباد کا رخ کرتے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی چیئرمین سینیٹ کوئٹہ کے لئے رختِ سفر باندھتے ہیں ۔ اس صورتحال میں جہاں بہت سارے لوگوں کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے وہیں سعید احمد ہاشمی کی اہمیت بہت بڑھ کر سامنے آئی ہے۔ سینیٹر انوار کاکڑ کے اس بیان کے بعد تو صورتحال اور گھمبیر ہو گئی جس میں انہوں نے سعید ہاشمی پر طنز کے تیر برساتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ وہ خود کو بانی کہلوانے پر مصر ہیں جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی میں آئینی طور پر بانی کا کوئی عہدہ ہی نہیں۔ دوسری طرف ہاشمی صاحب اور ان کے گروپ کے دیگر ارکان کی جانب سے وہ تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں جن میں سعید ہاشمی میڈیا پر باپ کے بانی کے طور پر تنظیم کا باقاعدہ اعلان کر رہے تھے تو سینیٹر انوار کاکڑ ان کے پہلو میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں اگرچہ یہ کوئی انہونی بات نہیں، صرف مل کر چلنے اور راہیں جدا کرنے کے معاملے کا فرق ہے، بہرحال سعید ہاشمی کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں قائم مقام صدر مقرر ہونے والے ظہور بلیدی نہ صرف پارٹی کمان سنبھال چکے ہیں بلکہ میڈیا میں اپنے موقف کی بھرپور نمائندگی بھی کر رہے ہیں لیکن ناراضی اور جدا راہوں کا معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ جام کمال کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ ماضی میں کچھ عرصہ وزیراعلیٰ رہنے کے بعد عبدالقدوس بزنجو خود کو بلوچستان کی سیاست کا اتنا طاقتور مہرہ سمجھنے لگے ہیں کہ وہ جب چاہیں بلوچستان کی حکومت گرا سکتے ہیں۔
یہ بات تو ہم اپنے ایک ٹی وی ٹاک شو میں بھی بتا چکے ہیں کہ بطور وزیراعلیٰ بلوچستان جو گاڑیاں جناب عبدالقدوس بزنجو کے زیر استعمال تھیں وہ وزارتِ اعلیٰ کے منصب سے ہٹائے جانے کے بعد اب بھی انہی کے زیر استعمال ہیں۔ اس حوالے سے انہیں نوٹس بھی جاری کیے گئے لیکن قریبی حلقوں کے مطابق عبدالقدوس بزنجو نے ابھی تک ان گاڑیوں کا استعمال چھوڑا اور نہ ہی یہ واپس کی ہیں بلکہ شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد یقینی طور پر کامیاب ہوگی اور یہ گاڑیاں مستقبل میں وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب ہونے کے بعد بھی انہی کے زیر تصرف رہیں گی بلکہ یار لوگوں کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ حالیہ اختلافات میں ان گاڑیوں کی واپسی کے سلسلے میں جاری ہونے والے نوٹسز کا بھیکوئی نہ کوئی کردار ہے لیکن ناراض گروپ اس بات کو تسلیم نہیں کرتا اور اس کا کہناہے کہ ان ہی کے ہاتھوں بنائے جانے والے وزیراعلیٰ نے ہر طرح سے تین برس تک انہیں نظر ا نداز کیے رکھا، ترقیاتی کام تو درکنار ملاقاتوں تک کا تکلف روا نہیں رکھا گیا، جام کمال ان الزامات پرنہ صرف حیران ہیں بلکہ اس کی نفی بھی کرتے ہیں وہ تو یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ’’باپ‘‘ میں وزیر اعلیٰ کے چار امیدوار ہیں، بلوچستان کے اس بحران کے دوران حسبِ معمول پیسوں کی تقسیم، خوبصورت پیش کشوں اور بریف کیسوں کے حوالے سے بھی کچھ غیر مصدقہ اطلاعات زیر گردش رہیں لیکن تحریک عدم اعتماد پر موجود لوگوں کے دستخطوں نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ متحد ہیں، اس سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ جام کمال گروپ کی طرف سے یہ دعویٰ کہ ان کے مخالفین باہمی اختلافات کا شکار ہو چکے ہیں، غلط ثابت ہوگیا تاہم جام کمال کے حامی یہ کہتے ہوئے دکھائی دیے کہ وہ ناراض ارکان کو منانے میں کامیاب ہو جائیں گے، اگرچہ وہ اعداد و شمار کی بنیاد پر یہ نہیں بتا سکے کہ عملی طور پر کتنے لوگ ان کے ساتھ ہیں تاہم وزیراعلیٰ کے مخالفین یہ پیشکش کر چکے ہیں کہ جام کمال از خود استعفیٰ دے کر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں ممکنہ شرمندگی اور خفت سے بچ سکتے ہیں اس حوالے سے انہیں ماضی کے تین وزرائے اعلیٰ کا حوالہ بھی دیا گیا جنہوںنے تحریک عدم اعتماد کی تیاری کی صورت میں خود ہی مستعفی ہو کر ’’عزتِ سادات‘‘ بچا لی تھی لیکن جام کمال کی باڈی لینگوئج اوراعتماد یہ ظاہر کرتا ہے کہ نتیجہ جو بھی نکلے وہ آخری دم تک لڑنا چاہتے ہیں ۔
دوسری جا نب بھی یہی صورتحال ہے لوگوں کی طرف سے ملاقاتوں، منت سماجت اور عہدوں کی پیشکشوں کے باوجود ناراض ارکا ن کے اتحاد میں دراڑ نہ پڑنا جام کمال کے لئے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ مبصرین سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی باریک واردات نہ ہوگئی تو جام کمال کا اقتدار ان کے ہاتھ سے چھنتا دکھائی دیتا ہے اور اگلا وزیراعلیٰ بلوچستان ان کے مخالف کیمپ سے کوئی بھی شخص ہو سکتا ہے لیکن ماضی کی خاموش روایات آگے بڑھ گئیں اور کسی کاریگرنے کوئی باریک واردات ڈال دی تو نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے اس کے لئے ہمیں بلوچستا ن اسمبلی کے اجلاس اور تحریک عدم اعتماد کے نتیجے کا انتظار کرنا ہوگا لیکن یاد رہے نتیجہ جو بھی ہو وفاق اور دیگر صوبائی حکومتوں کے مستقبل کے قیافے اس نتیجے پرموقوف ہوں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)