• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ جیسی جدید سہولت رکھنے والے پیارے لوگوں پر حکومت کے بعد قدرت کو بھی پیار آ گیا ہے۔ وہ جو بل ادا کر کے پسینے میں نہاتے تھے مفت کا پانی اُن کے گھروں میں پہنچ چکاہے۔ خاص طور پر جنوبی پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور زیریں سندھ، قلندر کی بات سنے بغیر پانی پانی ہو گیا۔ مون سون کی بارشوں نے اتنے بڑے پیمانے پر پانی کی سپلائی کے بدلے میں محض ساٹھ عدد شہریوں کا صدقہ قبول کیا۔ یہ تو کراچی سے بھی سستا سودا ہے۔ جہاں پچھلے چھ مہینے میں گرنے والی لاشوں کی تعداد تین ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے ۔ جس کے مقابلے میں کراچی کے مقتولوں کے غم میں چھپنے والے بیانات ساٹھ ہزار سے زیادہ ہیں۔ یہ تھیں چھوٹی موٹی خبریں۔ اصلی تے وڈی خبر تو یہ ہے کہ اب بارشوں کے ساتھ ہی فوٹو سیشن کا سیزن نمبر پانچ پہلے سے بھی زیادہ پھرتیوں کے ساتھ چلے گا۔ آخر صوابدیدی فنڈ کا عوام کے حق میں اس سے بہتر خرچ اور کہاں ہو سکتا ہے؟
دوسری جانب موجودہ جمہوریت کے پسندیدہ پڑوسی بھارت نے تھوڑے ہی عرصے میں دوسری بار پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ۔ جواب میں کنٹریکٹ پر بھرتی ”مشیرانِ خارجہ“ نے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے بعد اب گونگا ڈپلومیسی کا راستہ اپنایا ہے۔ ویسے اگر اسلام آباد ریڈ زون کی آئینی راہداری والی عینک سے دیکھا جائے تو سینیٹر جان کیری کے دورے کے بعد امریکی ڈرون حملوں اور بھارتی ڈرون گردی دونوں پر وزارتِ خارجہ کا موقف اصولی ہے۔ اس موقف کا خارجی اصول یہ کہ ہماری مشرقی اور مغربی سرحدوں پر ڈرون کی آزادانہ پرواز نہ تو خود مختاری کے خلاف ہے، نہ ہی ہماری قومی سالمیت پر حملہ۔ کیونکہ امریکہ اور بھارت سے دوستانہ تعلقات نبھانے کے لئے چھوٹے موٹے ڈرون حملے کا مقابلہ گونگا ڈپلومیسی سے بہتر ایف سولہ بھی نہیں کر سکتا۔ ویسے بھی اگر ذرا لبرل اور فراخ دل ہو کرسوچا جائے تو ڈرون کو نئے زمانے کا ریموٹ کنٹرول ”طائرِ لاہوتی“ بھی کہا جا سکتا ہے، جو اپنی مرضی سے کہیں بھی آتا جاتا رہتا ہے اور اقبال کے بقول اُسے کارِ آشیاں بندی جیسی کاروباری مصروفیات میں پڑنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔
دیسی لٹریچر اور بین الاقوامی باکس آفس پر ہٹ فلموں میں ادھارلی گئی کتاب کی واپسی کا وعدہ اور جیل کی دیواریں ہوتی ہی توڑنے کے لئے ہیں۔ اگر چند سو قیدی یا حوالاتی اجتماعی آزادی کا فیصلہ کر لیں تو جیل حکام کو چاہئے کہ وہ اکثریتی رائے کا احترام کریں۔ ڈی آئی خان میں بالکل ایسا ہی ہوا۔ جمہوری معاشرے میں قیدیوں کے حقوق کی بالادستی کی اس جدوجہد پر باوردی اہلکاروں کو شاباش دینے کی ضرورت ہے۔ ہاں البتہ نو آزاد قیدیوں نے اکیلے شربت پی کر کنجوسی سے کام لیا۔ اس لئے تمام جیلوں کے وہ قیدی جو حقِ آزادی کو استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ میٹھے شربت کے چھ سات ڈرم زیادہ تیار کر لیں تاکہ جمہوری پاکستان میں شربتی عدم مساوات کی شرم ناک تاریخ دہرائی نہ جا سکے۔ تاریخ سے یاد آیا ایک صاحب نجی محفل میں اپنی تاریخ ساز وکالت پر گفتگو کر رہے تھے۔ ان کا ایک سابقہ موکل بھی موجود تھا جس نے لمبی تمہید سے تنگ آ کر کہا۔ وکیل صاحب آپ کی تعریف اس سے زیادہ کیا ہو سکتی ہے کہ آپ مخالف فریق کو ہر پیشی پرنئی تاریخ کے ذریعے اور پھر اگلی تاریخ پرمزید اگلی تاریخ کے ذریعے اور مزید اگلی تاریخ پر حتمی آخری تاریخ کے ذریعے پھر حتمی تاریخ پر فائنل تاریخ کے ذریعے تھکا تھکا اور بھگا بھگاکر ہلکان کر دیتے ہیں۔ آج کل یہ تاریخ وہ دہرا رہے ہیں جنہوں نے چھ مہینے میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا تاریخی اعلان کیا تھا۔ اس لئے وہ جو اصولی موقف پر مبنی خبروں کی تلاش میں رہتے ہیں اُن تک یہ خوشخبری پہنچانا ضروری ہے کہ ہمارے دیرینہ دوست آئی ایم ایف کی جانب سے سوا چھ ارب ڈالر کے قرضے کے اعلان سے متاثر ہو کر ہمارے دیرینہ مہربان اسلامک بینک نے پچھتر کروڑ یورو کا مزید قرضہ دینے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے علاقائی آقا ،ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی پاکستان کی معاشی خود انحصاری میں اپنا حصہ ڈالنے کا روح افزا پیغام بھیجا ہے۔ ہم نے یہ سارے قرضے ان تینوں اداروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حاصل کئے ہیں۔ اس سے قومی غیرت کو ایٹمی حوصلہ ملا ہے۔چنانچہ سرکاری محکمہ موسمیات کو توقع ہے کہ ایک طرف عید کا چاند طلوع ہو گا اور دوسری طرف کشکول سیلابی پانی میں ڈوب مرے گا۔
قومی مسائل کے حل کا جو روڈ میپ سامنے آرہا ہے۔ اُس کے مثبت اثرات بھی تیزی سے ابھر رہے ہیں۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو قومی منظر نامے پر گتھم گتھا گروہوں کو ہی دیکھ لیں۔ ہم نے بیرونی حملوں اور اندرونی سازشوں کے مقابلے کے لئے اپنی توپوں کا رُخ اپنی صفوں کی صفائی کی طرف کر لیا ہے۔ بالکل اُسی طرح جیسے ہری سنگھ نلوا کی فوجوں کے مقابلے میں بعض پشوریئے توپچیوں نے رات کو توپوں کا رخ اپنی صفوں کی طرف کر دیا تھا جبکہ ہری سنگھ کے مخالف لشکری انہی توپوں کے سہارے فتح کے یقین کے ساتھ لمبی تان کر سو رہے تھے۔ اتفاق ، اتحاد، برداشت اور درگزر کے درس پر مبنی لیکچروں، تقریروں کے صوتی اثرات کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ یوں لگتا ہے سارا پاکستان، سارے ادارے، سارے بڑے اور سارے معتبر اپنی ساری توانائیاں ایک دوسرے پر خرچ کر رہے ہیں۔ کہیں کوئی ننھا سا تھنک ٹینک یا کہیں کوئی معصوم سا ادارہ بھی ایسا نہیں جہاں قومی ڈائیلاگ کیا جا سکے۔ ساری قوم فلمی ڈائیلاگ اور زبانی بڑھک بازی کو امرت دھارا سمجھ رہی ہے۔ تقسیم کا وہ عمل جو تقسیمِ بنگال سے شروع ہوا تھا اُس کے شگاف بھرنے والا کوئی نہیں۔ نمبر ون کی جو دوڑ فلمی نگار خانوں سے چلی تھی وہ قومی ایوانوں سے نکلنے کا نام نہیں لیتی۔ مساوات، قانون، راج نیتی، انصاف اور امن و امان جوگی کی طرح کوچ کر چکے ہیں۔ پاکستان کو باہر سے مارنے والے ہماری ایٹمی صلاحیت سے خوفزدہ ہیں لیکن ایک ایسا سماج جس کے چھوٹے، غریب اور مسکین طبقے خوف کے سائے میں سہمے ہوئے ہیں۔ عدم تحفظ اور عدم مساوات جہاں سکہ رائج الوقت ہے۔
وہاں وہ مار جو پاکستان کو اندر سے پڑ رہی ہے اُس کے درّہ برداروں کو روکنا ہو گا۔ اگر عوام کے تیور صرف ایک دفعہ اپنی اصل آواز میں بس بھئی بس کا نعرہ لگا دیں تو ہمیں لڑانے والے سہم جائیں گے، ورنہ کوئی صدارتی آرڈیننس یا کوئی عدالتی اسٹے آرڈر یا کوئی پارلیمانی قرارداد اس طبقاتی ، سماجی، سیاسی اور فرقہ وارانہ تقسیم کی دوڑ نہیں روک سکے گی۔ دوڑنے اور دوڑانے والے دونوں یاد رکھیں اس دوڑ کے آخری سرے پر آگ کے دریا بہہ رہے ہیں۔ ہمیں خود فریبی اور ذات کے انکار سے باہر نکلنا پڑے گا۔ جس کی پہلی منزل کھلے اعتراف سے شروع ہوتی ہے۔
خود اپنے ہاتھ بھی ہیں بجلیاں گرانے میں
لگی ہے آگ فقیروں کے آشیانے میں
شکستِ فاش کی زد میں ہیں جیتنے والے
کچھ ایسا پیچ پڑا ہے، قمار خانے میں
مچا ہواہے حلال و حرام کا غوغا
تازہ ترین