• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات چیت: نسیم حمید یوسف زئی، کوئٹہ

رپورٹ: یاسر خان

تصاویر : رابرٹ جیمس

بلوچستان کی پس ماندگی کا نوحہ تو ایک عرصے سے پڑھا جا رہا ہے، لیکن آج تک اِس کی وجوہ جاننے اور اصلاحِ احوال کی کوئی سنجیدگی کوشش نہیں کی گئی۔ گو کہ ماضی میں وفاق کی جانب سے صوبے کو فنڈز‘ ترقّیاتی منصوبوں‘ ملازمتوں اور دیگر شعبوں میں نظر انداز کیا گیا، جس کی وجہ سے پس ماندگی اور مایوسی بڑھی، جو وقتاً فوقتاً شورشوں کا بھی سبب بنی، جس کے نتیجے میں ہزاروں قیمتی جانیں ضایع ہوئیں، تو لاکھوں افراد اپنی زندگیوں کو در پیش خطرات کے باعث دیگر صوبوں میں منتقل ہونے پر مجبور ہوئے۔ 

تاہم، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دَوران وفاق کی جانب سے نہ صرف بارہا غلطیاں تسلیم کر کے معافی مانگی گئی، بلکہ ناانصافی کے ازالے کے لیے اربوں، کھربوں کے فنڈز بھی فراہم کیے گئے، لیکن بیڈ گورنینس اور کرپشن کے باعث بلوچستان کے عوام آج بھی ترقّی کے ثمرات سے محروم ہیں۔ کرپشن کی اِس بہتی گنگا میں ہر طبقے کے افراد نے ہاتھ دھوئے۔ سیاست دان ہوں یا بیورو کریٹس، ٹھیکے دار ہوں یا تاجر، جسے جہاں موقع ملا، اُس نے اپنا پورا پورا حصّہ وصول کیا۔ 

صوبے میں کرپشن یہاں تک پہنچ چُکی ہے کہ چند برس قبل نیب نے گریڈ 20کے ایک مقامی سرکاری افسر کے گھر کی پانی کی ٹینکی میں چُھپائے گئے کروڑوں روپے برآمد کیے، تو مُلک بھر کے عوام حیرت اور فکر مندی سے اپنا سَر تھام کر بیٹھ گئے۔اِس قدر کرپشن کے باوجود کچھ اداروں میں اب بھی ایسے افراد موجود ہیں، جو صوبے کی تعمیر و ترقّی کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں اور بلاشبہ ،یہی لوگ دوسروں کے لیے ایک مثال ہیں۔

ایسے ہی افراد میں سے ایک پی ایس پی گروپ سے تعلق رکھنے والے عثمان غنی صدیقی ہیں۔ ان کا تعلق سندھ سے ہے اور اِن دنوں آئی جی جیل خانہ جات، بلوچستان کے عُہدے پر تعیّنات ہیں۔ اُنہوں نے محض 3ماہ کے دَوران اپنے محکمے میں اِتنا کام کیا ہے، جو دیگر شعبوں کے لیے بھی مثال ہے۔ اس میں اُن کے پیش روئوں کے لیے بھی ایک سبق ہے، جن کی اکثریت کا تعلق بلوچستان سے تھا، مگر اس کے باوجود وہ ایسی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکے، جس کا یہ محکمہ متقاضی تھا۔ گزشتہ دنوں روزنامہ’’جنگ‘‘ کی ٹیم نے ڈسٹرکٹ جیل ،کوئٹہ کا دَورہ کیا، جس کے دَوران آئی جی جیل خانہ جات سے بھی مختلف امور پر گفتگو ہوئی، جو قارئین کی نذر ہے۔

س: اپنے تعلیمی کیریئر کے حوالے سے کچھ بتائیے اور یہ بھی کہ پولیس سروس کب جوائن کی؟

ج: مَیں نے ابتدائی تعلیم سندھ سے حاصل کی، پھر بیچلرز ڈگری کے لیے امریکا چلا گیا۔2000ء میں سی ایس ایس کے امتحان میں کام یابی کے بعد پولیس سروسز آف پاکستان کے لیے منتخب ہوا اور بطور اے ایس پی کیرئیر کا آغاز ہوا۔میری پہلی پوسٹنگ بلوچستان میں ہوئی، اُس کے بعد سندھ کے مختلف اضلاع میں تعیّنات رہا اور اب کچھ عرصے سے ایک بار پھر بلوچستان میں خدمات انجام دے رہا ہوں۔

قیدی کپڑے سلائی کرنا سیکھ رہے ہیں
قیدی کپڑے سلائی کرنا سیکھ رہے ہیں

س: محکمہ جیل خانہ جات کے سربراہ کے طور پر چارج سنبھالنے کے بعد قیدیوں اور عملے کے مسائل کے حل کے لیے کیا اقدامات کیے؟اور حکومت کا کس حد تک تعاون حاصل ہے؟

ج: بلوچستان میں اِس وقت 11جیلیں ہیں، جن میں پانچ سینٹرل اور چھے ڈسٹرکٹ جیلز ہیں۔ مچھ، خضدار، گڈانی، مستونگ اور ژوب میں سینٹرل جیلز ہیں، جب کہ کوئٹہ، سبّی، ڈیرہ مُراد جمالی، لورالائی، تُربت اور نوشکی میں ڈسٹرکٹ جیلز ہیں۔ ان جیلوں میں اِن دنوں مجموعی طور پر2533افراد قید ہیں۔وزیرِ اعلیٰ بلوچستان، جام کمال خان جہاں مختلف شعبوں میں اصلاحات کر رہے ہیں، وہیں جیلوں میں اصلاحاتی عمل کے لیے بھی ہمیں اُن کا بھرپور تعاون حاصل ہے اور حال ہی میں اُن کی جانب سے محکمے کے لیے40کروڑ روپے سے زاید رقم کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ 

مَیں نے چارج سنبھالتے ہی تمام جیلوں کا دورہ کر کے قیدیوں اور عملے کے مسائل کا جائزہ لیا۔ پھر مسائل کے حل کے لیے ایک حکمتِ عملی مرتّب کی۔اِس ضمن میں ہم نے مخیّر افراد، خاص طور پر کراچی کی فلاحی تنظیموں سے رابطہ کیا، جس کے نتیجے میں مختصر سے عرصے کے دَوران غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے کروڑوں روپے کا سامان عطیہ کیا گیا۔ مجھے دورے کے دَوران یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ قیدی تو ایک طرف رہے، عملے تک کو پینے کا صاف پانی میّسر نہیں تھا۔

ہم کراچی کی فلاحی تنظیم، ایس ڈبلیو جی سوشل ویلفیئر کی مدد سے 7جیلوں میں واٹر فلٹریشن پلانٹس نصب کر چُکے ہیں، جو ایک گھنٹے میں دس ہزار لیٹر پانی صاف اور اُسے ٹھنڈا کرنے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔باقی ماندہ 4جیلوں میں بھی جلد ہی واٹر فلٹریشن پلانٹس نصب کر دیے جائیں گے، جس کے بعد پانی کا مسئلہ تقریباً حل ہو جائے گا۔ ہم نے کھانے کے معیار کا جائزہ لیا، تو معلوم ہوا کہ موجودہ فنڈز میں ایک قیدی کے لیے یومیہ 70روپے مختص کیے گئے ہیں، اِس رقم سے کیا کھانا مل سکتا ہے؟ 

اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔لہٰذا، ہم نے اعلیٰ حکّام کو قیدیوں کے یومیہ اخراجات میں اضافے کی درخواست ارسال کی ہے، جس کی جلد منظوری کی امید ہے۔فی الحال سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کی جانب سے ہر جمعے کو قیدیوں میں بریانی تقسیم کی جا رہی ہے، جب کہ چند روز قبل قیدیوں میں نئے جوتے بھی تقسیم کیے گئے۔

طبّی سہولتوں کی فراہمی میں بہتری لائی گئی ہے
طبّی سہولتوں کی فراہمی میں بہتری لائی گئی ہے

س: جیلوں میں کئی ایسے قیدی بھی ہوں گے، جو جرمانے کی عدم ادائی کے باعث سزا بھگتنے پر مجبور ہیں، تو اِس حوالے سے آپ نے کیا اقدامات کیے؟

ج: جی ہاں، کوئٹہ سمیت مختلف جیلوں میں ایسے قیدی موجود ہیں، جو مختلف نوعیت کے جرمانوں کی عدم ادائی کے باعث سزا بھگت رہے ہیں۔ ہم نے غیر سرکاری تنظیم کے تعاون سے رقم کا بندوبست کر کے کئی قیدیوں کو رہا کروایا ہے۔حال ہی میں 25ایسے قیدی رہا کروائے، جن کے جرمانے ایک ہزار سے لے کر19لاکھ روپے تک تھے۔

یہ بھی یاد رہے کہ جرمانوں کی ادائی کے حوالے سے وفاقی، صوبائی کمیٹیز قائم ہیں اور اس کا ایک قانونی طریقۂ کار ہے، جس کی پابندی ضروری ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ کوئی ایسا میکنزم بنایا جائے، جس کے ذریعے جو لوگ جرمانے کے باعث اضافی سزا بھگتتے ہیں، اُنھیں سہولت فراہم کی جاسکے۔

س: کیا قیدیوں کو کارآمد شہری بنانے کے لیے بھی کچھ اقدامات کیے جا رہے ہیں؟

ج: جیلوں کی حالت بہتر بنانے کے بعد ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج قیدیوں کو معاشرے کا کارآمد شہری بنانا ہی ہے تاکہ وہ رہائی کے بعد اپنی بقیہ زندگی پُرامن اور مفید شہری کے طور پر گزار سکیں۔ہم نے سب سے پہلے تو قیدیوں کی ذہنی صحت کے حوالے سے کام کیا۔ ان کے لیے کھیلوں اور باغ بانی کی سرگرمیاں شروع کیں تاکہ وہ چاق چوبند رہیں۔

نیز، ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے بھی ذہنی صحت کے حوالے سے آگہی دی جا رہی ہے۔ ڈسٹرکٹ جیل کوئٹہ میں شاہد خان آفریدی کے تعاون سے ایک فُٹ بال گرائونڈ بنایا ہے، جس کے لیے اُنھوں نے 70لاکھ روپے دئیے تھے۔یوں بلوچستان مُلک کا پہلا صوبہ ہے، جس کی جیل میں گراؤنڈ بنایا گیا ہے۔ اس میدان میں فُٹ بال کے علاوہ والی بال اور دیگر کھیل بھی کھیلے جا سکتے ہیں۔علاوہ ازیں، جیل میں کئی خالی مقامات پر باغ بانی بھی شروع کروائی گئی ہے، جہاں قیدی مختلف پودے اور سبزیاں اُگاتے ہیں۔

جمعے اور ہفتے کے دن قیدیوں کو آرٹ ورک سِکھایا جاتا ہے، تو اُن کے لیے میوزک کلاسز کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔لائبریری کو فعال بنایا گیا ہے، جس میں مختلف تنظیموں کی جانب سے کتب فراہم کی گئی ہیں اور کئی قیدی اسلامی کتب کا بھی مطالعہ کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ قیدی ایسی کتب پڑھیں، جن سے ذہن و کردار سازی ہو سکے۔ کراچی جیل کی طرز پر قیدیوں کے رویّوں کی تبدیلی کے لیے خصوصی کورس بھی شروع کروایا ہے۔پہلے مرحلے میں گڈانی جیل میں یہ کورس شروع کیا گیا ہے۔

حکومت کی جانب سے تعلیم اور دیگر کورسز کے بعد سزا میں رعایت مل جاتی ہے، اِس وجہ سے بھی قیدی پڑھنے لکھنے میں کافی دل چسپی لے رہے ہیں۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ہم قیدیوں کو مختلف ہنر بھی سِکھا رہے ہیں تاکہ رہائی کے بعد اُنھیں معاشی مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اِس ضمن میں ہم نے اپنے عملے کو محکمہ مین پاور ٹریننگ سے تربیت دلوائی ہے تاکہ وہ قیدیوں کو کوئی نہ کوئی ہنر سِکھا سکیں۔ کمپیوٹر پروگرامنگ کے ساتھ پلمبرنگ، الیکٹریشن اور موبائل فون ریپیئرنگ جیسے کورسز کروائے جا رہے ہیں۔مستقبل میں ہماری یہ کوشش بھی ہوگی کہ قیدیوں کی جانب سے بنائی گئی اشیاء مختلف نمائشوں میں رکھی جائیں تا کہ اس سے قیدیوں کو کچھ آمدنی بھی ہو سکے۔

اب قیدی مختلف کھیلوں سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں
اب قیدی مختلف کھیلوں سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں

س:نو عُمر قیدیوں کو بڑی عُمر کے قیدیوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے یا اُن کے الگ بیرکس ہیں؟

ج: صوبے کی تمام جیلوں میں خواتین اور نو عُمر قیدیوں کے لیے علیٰحدہ بیرکس ہیں۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ جیل کا تصوّر سزا خانوں یا عقوبت خانوں کی بجائے اصلاح خانوں کے طور پر ہو۔اسی بنا پر ہم تمام قیدیوں، خاص طور پر نو عُمر قیدیوں کی ایسی تربیت کر رہے ہیں کہ وہ رہائی کے بعد اپنے خاندان یا معاشرے کے لیے مشکلات کی بجائے آسانی کا سبب بنیں۔ ڈسٹرکٹ جیل کوئٹہ میں قید بچّوں کا کمپیوٹر اور موبائل فونز کی جانب زیادہ رجحان ہے اور وہ ان سے متعلق کورسز بھی کر رہے ہیں۔

س: افسران کو ہفتے میں ایک دن قیدیوں کے ساتھ کھانا کھانے کا پابند بنایا گیا ہے، اِس فیصلے کی کیا وجوہ ہیں؟

ج: مَیں خود اپنی فیملی کے ساتھ اکثر قیدیوں کے بیچ بیٹھ کے کھانا کھاتا ہوں، جب کہ ہفتے میں ایک روز ہر افسر کو قیدیوں کے ساتھ کھانا کھانے کا پابند بنایا گیا ہے۔قیدی بھی انسان اور ہمارے معاشرے کا حصّہ ہیں، سو، اُن سے انسانوں جیسا سلوک ہونا چاہیے۔ جیل میں ناشتے اور کھانے کا معیار پہلے سے بہتر بنایا گیا ہے اور اب ایسا کھانا تیار کیا جا رہا ہے، جو قیدیوں کے ساتھ عملہ بھی کھا سکتا ہے۔مَیں کھانے کے معیار کی بہتری کے لیے مختلف ڈونرز سے رابطے میں ہوں۔ گوشت کے لیے بھی باقاعدہ دن مختص کیا گیا ہے، جب کہ باورچی خانے میں صفائی ستھرائی کے انتظام میں بھی بہتری لائی گئی ہے۔

سیکڑوں کتب پر مشتمل لائبریری کا ایک منظر
سیکڑوں کتب پر مشتمل لائبریری کا ایک منظر

س:قیدیوں کو علاج معالجے کی سہولتیں کس حد تک میّسر ہیں؟کیا قیدیوں کی کورونا ویکسی نیشن بھی کی گئی ہے؟

ج: آپ کے اخبار کے قارئین کے لیے یہ بات دِل چسپی کا باعث ہوگی کہ محکمہ جیل خانہ جات، بلوچستان کے تمام عملے اور قیدیوں کی100فی صد کورونا ویکسی نیشن کردی گئی ہے۔ کوئٹہ سمیت مختلف اضلاع کی لیبارٹریز کو جدید دَور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹرز اور دیگر طبّی عملہ24گھنٹے موجود رہتا ہے۔’’وزیرِ اعلیٰ بلوچستان ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام‘‘ کی جانب سے تمام جیلوں میں انسدادِ یرقان ویکسی نیشن کا عمل بھی شروع کیا گیا ہے۔

بلوچستان کی جیلوں میں ہیپاٹائٹس کے تدارک کے لیے اسکریننگ، ویکسی نیشن اور علاج معالجے کے دیگر اقدمات کو نتیجہ خیز بنایا جائے گا۔ معمول کے علاج معالجے کے ساتھ قیدیوں کی نفسیاتی کاؤنسلنگ اور ٹیلی میڈیسن بھی ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔قیدیوں کے تناسب سے ڈاکٹرز کی تعیّناتی سے علاج معالجے کی بہتر سہولتیں فراہم ہوسکتی ہیں، تو اِس حوالے سے مَیں نے گزشتہ دنوں پارلیمانی سیکرٹری صحت، ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی سے ملاقات کی، جس میں اُنہوں نے یقین دہانی کروائی کہ قیدیوں کو علاج معالجے کی بہتر سہولتوں کی فراہمی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔

پارلیمانی سیکریٹری نے یہ بھی بتایا کہ ڈبلیو ایچ او کے تعاون سے بلوچستان کے منتخب اضلاع میں پائلٹ پراجیکٹ کے تحت ٹیلی میڈیسن سینٹر کام کر رہے ہیں، جن کے ذریعے ماہرین دُور افتادہ علاقوں کے عوام کو معیاری میڈیکل کنسلٹینسی فراہم کررہے ہیں۔اِسی پروگرام کے تحت حکومتِ بلوچستان قیدیوں کو بھی سائیکاٹری ٹیلی میڈیسن تک رسائی دے گی۔نیز، محکمہ جیل خانہ جات کے پروپوزل کے مطابق جیلوں میں ڈاکٹرز کی کمی پوری کی جائے گی۔

س: آپ محکمے میں انقلابی اصلاحات کی بات کر رہے ہیں، لیکن گزشتہ دنوں بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے جیل کے اچانک دَورے کے دوران صُورتِ حال پر اظہارِ ناراضی کیا تھا؟

ج: ہم وسائل میں رہتے ہوئے جتنا کچھ کرسکتے ہیں، کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں چیف جسٹس ،بلوچستان ہائی کورٹ نے جیل کے دَورے کے موقعے پر قیدیوں سے ملاقات کے لیے آنے والوں کا رش اور باقاعدہ انتظار گاہیں نہ ہونے سے متعلق اظہارِ ناراضی کیا اور ہماری رہنمائی بھی کی، جس پر ہم نے ہنگامی بنیادوں پر انتظار گاہ کی تعمیر شروع کر وا دی اور 2دن میں وہ بن بھی گئی۔

ہم نے وسیع اور ہوا دار کمروں پر مشتمل انتظار گاہ کو نئی کرسیوں اور دیگر سہولتوں سے آراستہ کر دیا ہے، جہاں پُرسکون ماحول میں قیدیوں سے ملاقات کی جا سکتی ہے، جب کہ قیدیوں کے لیے لایا گیا سامان چیکنگ کے بعد متعلقہ قیدی تک بحفاطت پہنچا دیا جاتا ہے۔ قیدیوں سے ملاقات کا عمل سہل کر دیا گیا ہے کہ اب ہر روز ملاقات کی جا سکتی ہے۔ نیز، ہم جدید سسٹم پر بھی غور کر رہے ہیں، جس کے تحت بڑی اسکرینز نصب کر دی جائیں گی، جہاں ورچوئل انداز میں قیدی اپنے عزیز و اقارب سے گفتگو کر سکیں گے۔

س: قیدیوں کے مسائل تو کافی حد تک حل ہوگئے، کیا عملے کے لیے بھی کچھ کر رہے ہیں؟

ج: یہ سوال تو آپ کو میرے ماتحت عملے سے پوچھنا چاہیے کہ اُن کی بہتری کے لیے کچھ ہوا یا نہیں؟میرے دفتر اور گھر کے دروازے24گھنٹے ان کے لیے کُھلے ہیں۔ٹرانسفر، پوسٹنگ سمیت اُن کے جتنے بھی مسائل ہیں، اُنہیں ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔صوبے میں سیکوریٹی فورسز کے اہل کاروں کو خصوصی الائونسز مل رہے ہیں، جن سے ہمارے محکمے کے افسران اور جوان محروم ہیں، حالاں کہ پولیس اور دیگر ادارے تو کچھ دنوں تک ہی ملزمان کو سنبھالتے ہیں، باقی سارا کام تو محکمہ جیل خانہ جات ہی کرتا ہے۔ 

اکثر اوقات خطرناک قیدیوں کی جانب سے عملے کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی ملتی ہیں، لہٰذا، محکمے کی خدمات دیکھتے ہوئے ہمارے افسران اور جوانوں کے لیے بھی خصوصی الائونسز ہونے چاہئیں۔ اِس ضمن میں اعلیٰ حکّام کو خط بھی لکھا ہے۔ محکمہ جیل خانہ جات اِس وقت900 افراد کے عملے پر مشتمل ہے، جب کہ ہمیں300اہل کاروں کی کمی کا سامنا ہے۔ بھرتیوں کا سلسلہ جاری ہے اور ہماری کوشش ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو میرٹ پر بھرتی کیا جائے۔

س: کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟

ج: صوبے کے عوام، خاص طور پر نوجوانوں کے لیے میرا یہی پیغام ہے کہ بابائے قوم، قائدِ اعظم، محمّد علی جناح کے فرمان کے مطابق’’کام کام اور صرف کام‘‘ پر عمل کریں۔ موجودہ دَور مقابلے کا ہے اور اس میں پڑھے لکھے، باصلاحیت نوجوانوں کے لیے بہت زیادہ مواقع ہیں۔ نوجوان محنت، دِل جمعی سے تعلیم حاصل کریں، تو مقابلے کے امتخانات میں حصّہ لے کر اعلیٰ سرکاری پوزیشنز تک پہنچ سکتے ہیں، جہاں سے وہ بہتر انداز میں مُلک و قوم کی خدمت کر سکتے ہیں۔

دیانت داری وہ خُوبی ہے، جس کے ذریعے آپ دنیا و آخرت دونوں میں سُرخ رُو ہو سکتے ہیں۔ بیورو کریسی ہو سرکاری افسران، وکلاء ہوں یا صحافی،سب کو صوبے کی ترقّی میں اپنا حصّہ ڈالنا چاہیے۔

تازہ ترین