شبانہ ایاز
نوجوانوں کی اعلی سوچ اور ارفع کردار کسی بھی ملک و قوم کو ترقی و خوشحالی سے دوچار کرتا ہے۔ علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا تھا کہ :
_ اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
نوجوانوں میں بے پناہ صلاحیتیں ہیںلیکن مشکل یہ ہے کہ آج کا نوجوان ہر چیز کو مادی اعتبار سے دیکھ رہا ہے ۔مہنگا موبائل، نئے ماڈل کی گاڑی، پر تعیش زندگی کا خواہش مند ہے، یہی وجہ ہے کہ آج بیش تر نوجوان ڈپریشن کا شکار اور بے سکون ہیں۔ ذہنی و قلبی سکون نہ ہو تو انسان کی زندگی دوزخ سے بدتر ہو جاتی ہے پھر دولت، شہرت کچھ بھی کام نہیں آتی۔
مادیت پرستی کی وجہ سے بیش ترنوجوان تنہائی کا شکار ہو جاتےہیں۔ افسوس ہوتا ہے آج کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو دیکھ کر کہ وہ ، اپنے اصل مقصد کو یکسر فراموش کیے ہوئے ہیں۔ نسل نو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے سحر میں اس قدر کھو گئی ہے کہ اسلامی تعلیمات اوراخلاقیات کو فراموش کر چکی ہے۔
اچھی تربیت، مثبت سرگرمیوں اور سہولتوں سے محروم نوجوانوں کے ہاتھ میں موبائل ،کمپیوٹر اور انٹرنیٹ جیسے اوزار تھما دیے گئے ہیں، جن کا تخریبی استعمال وہ بہت خوب کر رہے ہیں۔ یعنی جدید ٹیکنالوجی کو تعمیری کاموں میں استعمال نہیں کر رہے۔
اُن میں بے حسی پروان چڑھ رہی ہے ، قوت ارادی ختم ہو رہی ہے۔ بدتمیزی اور بے باکی بڑھتی جا رہی ہے۔ عیش و عشرت سے محبت، تن آسانی کا رجحان اُن میں بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ڈگری یافتہ نوجوان عملی زندگی میں بری طرح ناکام ہو رہے ہیں۔
مادی نعمتوں اور آسائشوں کا تصور اس قدر غالب ہے کہ آخرت کا خوف اُن میں ختم ہو چکا ہے۔ مفاد پرستی اور خود غرضی جنم لے رہی ہے۔ اس میں زیادہ قصور والدین کا ہے کہ وہ بچوں کی اخلاقی تربیت صحیح طور پر نہیں کر رہے۔ انہیں اسکولوں میں داخل کروا کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے۔ انہیں اسلامی تعلیمات سے آگاہ کریں،انہیں انسانیت کا درس دیں۔ اُن کا تعلق اپنے رب سے مضبوط کریں ۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ بیش تر نوجوانوں میں انسانیت، اخلاق اور برداشت نہیں ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کو اسوہ ٔرسول بتائے جائیں۔ گفتگو میں نرمی، ظلم سے اجتناب، دھوکہ، بے ایمانی ،فریب ان سب کے بارے بتایا جائے نیز انہیں مقصدِ حیات سے روشناس کرائیں۔
بچوں کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ سکون کا حصول مادیت میں پنہاں نہیں بلکہ اپنے اخلاق و کردار سے، دوسروں کی دل جوئی سےغصے پر قابو پانے سے اور فرائض کی ادائیگی میں ہے۔ ہر چیز کو دولت کے ترازو میں نہ تولیں۔