در شہوار قادری
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی شخصیت ملک وقوم کے لیے ایک قیمتی اثاثہ تھی۔ یہ کہنے میں کوئی آر نہیں کہ قائد اعظم اور قائد ملت کے بعد جس ہستی کو عوام سے بے انتہا پیار اور چاہت نصیب ہوئی وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھے۔ میں سر سید یونی ورسٹی آف انجینیرنگ ، ڈیپارٹمنٹ مطالعہ پاکستان میں اسسٹنٹ پروفیسر تھی۔
ڈاکٹر عبدالقدیر یونی ورسٹی کے بورڈ آف گورنر کے ممبر تھے۔ وہ ہر سال بورڈ کی میٹنگ میں شرکت کے لیے یونی ورسٹی آتے تھے اور اپنے قیمتی تجربات اور تعلیمی مشوروں سے ہمارے ادارے کو نوازا کرتے تھے۔ اتفاق ہے کہ میری اُن سے کبھی ملاقات نہیں ہو سکی تھی۔ ایک دن مجھے اطلاع ملی کہ ڈاکٹر صاحب یونی ورسٹی آرہے ہیں ۔ میں اُن سے ملنے کے لیے بےتاب ہوگئی اور اُس وقت کا بے چینی سے انتظار کرنے لگی ۔ یوں تو وہ اپنے قیمتی مشوروں سے نوازنے کے لیے ہمارے ادارے میں اکثر وبیشتر آتے تھے۔
جس دن اُنہیں یونی ورسٹی آنا تھا، اُس سے صرف دو روز قبل ہی میں نے اپنی کلاس کے طلباء کو ڈاکٹر قدیر کے شاندار کارناموں کے بارے میں بتایا تھا کہ، کس طرح 1971میں پاکستان کے دولخت ہو جانے کے بعد ابھی ہماری قوم زخموں سے چور چور تھی کہ بھارت نے 1974میں ایٹمی دھماکا کر کے مزید پریشان کر دیا ۔ پاکستان کو اس وقت اپنی دفاع کا خطرہ لاحق ہو گیا۔ ان گھمبیر حالات میں ہالینڈ میں مقیم ڈاکٹر قدیر خان نے جب پاکستان کی سالمیت کو خطرے میں دیکھا تو اپنی پرکشش ملازمت اور سنہرے مستقبل کو خیر باد کہہ کر وطن واپس آگئے۔
وہ ایک درد مند، محب وطن تھے ۔ اُن کے ساتھ ان کی غیر ملکی اہلیہ نےبھی پاکستان آنے کا مشکل فیصلہ کیا کہ جہاں پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں بھری راہیں قدم قدم پر موجود تھیں،اُس کے باوجود اُن کے عزائم اور حوصلےبہت مضبوط تھے۔
ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو
طلاطم خیز موجود سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
دس سال تک ڈاکٹر صاحب اور ان کی تیار کردہ ٹیم انتہائی لگن اور محنت کے ساتھ دشمن کا منہ توڑ جواب دینے کےلئے جدوجہد میں لگی رہی ، جنہیں نہ دن کا پتہ تھا نہ رات کی خبر۔ بس ایک جنون تھا اپنے مقصد کو پا لینے کا۔بالاآخر اُن کا جنون کامیابی کی صورت میں سب کے سامنے آیا۔ کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوئی تھی کہ پاکستان جیسا پسماندہ ملک نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے مراحل میں داخل ہو چکا ہے اور 28مئی 1998 کو پاکستان کو دنیا کےساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بن گیا۔
اپنے طلباء کو قومی ہیرو کے شاندار کارناموں سے آگاہ کرنے کے بعد میں شدت سے منتظر تھی کہ ڈاکٹر صاحب یونیورسٹی تشریف لائیں تو میں انہیں قریب سے اپنے سامنے دیکھ سکوں۔ وہ میری زندگی کے بہترین لمحات تھے۔ جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان میرے سامنے تھے۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وطن کے عظیم فرزند اور قومی ہیرو حقیقت بن کر ہمارے روبرو کھڑے ہیں۔ میں نے محسن قوم کے سامنے شکر گزاری کے چند الفاظ کہنا چاہے تو الفاظ نے جیسے میرا ساتھ چھوڑ دیا ہو ، میں صرف یہ کہہ سکی ’’ ڈاکٹر صاحب قوم آپ کی احسان مند ہے ‘‘۔
ڈاکٹر صاحب نے میری بات کے جواب میں کہا کہ،’’میں نے جو کچھ کیا وہ احسان نہیں میرا فرض تھا، آپ محبِ وطن طلباء تیار کیجئے، پاکستان کا مستقبل انشاء اللہ محفوظ اور روشن ہے ‘‘ عہدے، اعزازات و اکرامات تو ناپائیدار القابات پذیرائی ہوتے ہیں جو کچھ مدت تک اپنی بہاریں دکھاتے رہتے ہیں لیکن ڈاکٹرعبدا لقدیر خان بائیس کروڑ پاکستانیوں کے دلوں میں بستے ہیں، پاکستانیوں کے علاوہ عالمِ اسلام کے باسیوں کے بھی محسن ہیں ، جنہیں ناقابل تسخیر بنا دیا۔
ڈاکٹر قدیر نے ہمارے گھر کی دیواریں مضبوط کر کے دشمن کے وار سے محفوظ کر دیا۔ آپ کے شاندار ایٹمی کارنامے کے علاوہ آپ کی سماجی و رفاعی خدمات بھی آپ کا مقام بلند کرنے کے لیے کافی ہیں۔
نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا
پل بنا چاہ بنا مسجد و تالاب بنا
پسماندہ پاکستان کا ایٹمی طاقت بننا ایک معجزہ تھا۔ ہمارے اٹھے ہوئے ہاتھ اور لبوں سے نکلی دعائیں یہی کہہ رہی ہیں۔ اللہ اس بڑے آدمی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔(آمین)