’’چیکوسلواکیہ‘‘ کے معروف ادیب ’’لاڈیسلو فکس‘‘ نے اصنافِ ادب میں اپنے اظہارِ خیال کے لیے سب سے زیادہ جس صنف سے استفادہ کیا، وہ ناول نگاری ہے۔ انہوں نے اپنے ناول میں نفسیات کو موضوع بنایا اور متعدد تخلیقات میں فلسفے کے نظریات بھی استعمال کیے۔ ان کے ناولوں کا زمانہ وہ ہے، جب ’’چیکوسلواکیہ‘‘ پر نازی جرمنی کا قبضہ تھا۔ ان کے تخلیق کردہ کرداروں کے ذریعے، اس وقت کے جنگی جرائم اور سماجی فضا کی زبوں حالی کو محسوس کیا جاسکتا ہے، ایسی اداسی، جس سے کئی نسلیں متاثر ہوئیں۔
’’لاڈیسلو فکس‘‘ خود بھی نازی جرمنی کے زیر تسلط برسوں جبری ملازمتوں کا شکار رہے، ان برسوں کے تجربات کی واضح جھلک ان کے ادبی کام میں دیکھی جاسکتی ہے، البتہ انہوں نے مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے رواداری اور خاموشی کو اپنایا، مگر ظلم و ستم کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتے رہے، جس کو اپنے ادبی تخیل کے لیے استعمال کیا۔
انہوں نے’’چیکوسلواکیہ‘‘ کے دارلحکومت’’پراگ‘‘ میں قائم’’چارلس یونیورسٹی‘‘ سے دوران تعلیم، فلسفہ، نفسیات اور آرٹ ہسٹری کے مضامین پڑھے اور پھر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ساٹھ کی دہائی میں مصنف کی حیثیت سے کام شروع کیا، اس سے پہلے مصوری سے وابستہ اداروں سے منسلک رہے۔ 1963 میں ان کے پہلے ناول کی اشاعت ہوئی اور ایک سال بعدہی ان کی کہانیوں کا مجموعہ بھی چھپ کر قارئین تک پہنچا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں سماجی دوری اختیار کرلی اور تن تنہا رہے، ایسے ہی حالات میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی حقیقی زندگی بھی اداس کر دینے والی ہے، جس طرح ان کے ناول اور کردار قارئین کو ایک عجیب سی اداسی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
’’لاڈیسلو فکس‘‘ نے متعدد ناول لکھے اور ان کی کہانیوں کے متعدد مجموعے بھی شائع ہوئے۔ یہاں ان کے جس ناول کا انتخاب کیا گیا ہے، اس کا چیک زبان میں نام’’سپلووچ مرتول‘‘ ہے، جس کے لغوی معنی’’لاشیں جلانے والا‘‘ کے ہیں۔ 1967 میں یہ ناول پہلی مرتبہ چیک زبان میں شائع ہوا۔ اس کہانی کا مرکزی خیال ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو لاشیں جلانے کا کام کرتا ہے اور نازیوں کے نظریات سے متاثر بھی ہے۔
وہ انتہاپسندانہ نظریات میں اس قدر دیوانگی کا شکار ہو جاتا ہے کہ اپنے ہی خاندان کا قتل کر دیتا ہے، کیونکہ اس کے خیال میں، اس نے ان کی روحوں کو پاکیزہ کرتے ہوئے، اس زندگی کی قید سے آزاد کروایا ہے، تاکہ وہ دوبارہ بہترین جنم لے سکیں۔ اس شیطان صفت انسان کا کردار پوری کہانی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کہانی کے ذریعے اُس وقت ہونے والے یہودیوں کے قتل عام کو بھی ادبی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
اس ناول پر مشہورِ زمانہ فلم بھی بنی، جس کا عنوان ، ناول ہی کے نام پر رکھا گیا تھا۔ فلم کے ہدایت کار’’یورائی ہرز‘‘ ہیں، جن کی زبان’’سلواک‘‘ ہے۔ انہوں نے ’’لاڈیسلو فکس‘‘ کے ساتھ مل کر فلم کا اسکرین پلے لکھا۔ یہ فلم 1969 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ فلم کا شمار چیکوسلواکیہ کی شاہکار فلموں میں ہوتا ہے۔فلم کو 42ویں اکادمی ایوارڈز میں بطور بہترین غیر ملکی زبان کی فلم کے شعبے کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔
اس فلم نے بہت سارے فلمی اعزازات اپنے نام کیے، یہ مختلف فلمی میلوں میں آج بھی دکھائی جاتی ہے۔ فلم میں بہت سارے’’مونولاگز‘‘ ہیں، یعنی مرکزی کردار خود کلامی یا اپنے متعلقہ کرداروں سے طویل مکالمہ بازی کرتا ہے۔ جرمن زبان میں’’تاثرات نگاری‘‘ کے زیر اثر بنائی گئی اس فلم کا شمار، چیکو سلواکیہ کی ایسی فلموں میں ہوتا ہے، جنہوں نے اپنے ملک میں نئے فلمی نظریات کو فروغ دیا۔ تاثرات نگاری میں معروف فرانسیسی مفکر، ادیب اور فلسفی’’جان پال سارتر‘‘ کی فکر سے بھی کہانی بہت متاثر کھائی گئی ہے اور ساتھ ساتھ تبتی بدھ ازم کے افکار سے بھی مرکزی کردار کو متاثرہ دکھایا ہے۔
فلم اور ناول کی کہانی میں کہیں کہیں، ضرورت کے مطابق، ردوبدل بھی کیا گیا ہے۔ یہ فلم دو دہائیوں تک اپنے ہی ملک میںغیر اعلانیہ پابندی کا شکار بھی رہی۔ نوے کی دہائی میں اس فلم کا دوبارہ احیا ہوا۔ موجودہ دور کے سینما میں اس فلم کا شمار جدید کلاسیکی فلموں میں کیا جاتا ہے، جس میں ہدایت کاری، اداکاری، سینماٹوگرافی ، ایڈیٹنگ، موسیقی سمیت تمام دیگر شعبوں میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ اس ناول اور فلم کے ذریعے ایک مخصوص ملکی اورمتنازعہ دور کی داستان کو نہایت متاثر کن انداز میں بیان کیا اور فلمایا گیا۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی