طویل عرصے بعد آخر کار سینما گھر تو کُھل گئے، مگر رونقیں بحالی نہیں ہوئیں، ہمیں کووڈ 19 سے آہستہ آہستہ آزادی مل رہی ہے، ہم سب زندگی کی جانب لوٹ رہے۔ دُنیا بھر میں شو بزنس انڈسٹری بحال ہونے لگی ہے۔ اسکول، کالج، یونی ورسٹیز اور شادی ہالوں کے بعد پاکستان بھر میں سینما گھر بھی کُھلنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے پنجاب کے سینما گھروں کو اجازت دی گئی اور اب مرحلہ وار سندھ اور کراچی کا سینما گھروں کو بھی کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ سینما گھروں کے کُھلنے کے باوجود سینما مالکان کی دل چسپی اور خوشی نہیں دکھائی دے رہی ہے ۔ سرمایہ دار ذہن رکھنے والے سینما مالکان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ فلم انڈسٹری اپنے قدموں پر کھڑی ہو۔
سینما کی رونقیں بحال ہوں۔ انہیں صرف سرمایہ کمانے سے مطلب ہے۔ سرمایہ دارانہ ذہن رکھنے والے سینما مالکان کا کہنا ہے کہ ہمیں سینما بند رکھنے میں کم نقصان ہے، جب کہ کھلونے میں زیادہ نقصان ہے۔ اس طرح کی ذہنیت سے فلم انڈسٹری کس طرح بحال ہوسکتی ہے۔ فلم ساز سخت پریشان ہیں کہ جب سینما گھروں میں فلم بین نہیں آئیں گے، تو فلموں پر ہونے والی سرمایہ کاری کیسے واپس ہوگی۔ سینما مالکان کی دولت کمانے کی سوچ کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ انہوں نے سینما گھر کھولے اور ٹکٹ 1500 روپے کا رکھا ہوا ہے، یہاں تک کہ کرکٹ ورلڈ کپ کے میچز بھی پندرہ سو روپے میں دکھا رہے ہیں۔
ایسی مہنگائی میں کرکٹ اور فلم دیکھنے کے لیے اتنے مہنگے ٹکٹ کون خریدے گا، کیوں کہ اگر کوئی فیملی کے ساتھ فلم دیکھنے آتا ہے، تو اس مہنگائی میں اس کے ہزاروں روپے خرچ ہوں گے، ٹکٹ کے علاوہ وہ کچھ کھانے پینے کے لیے بھی خرچ کرے گا، ویکسین بھی لگوائے، کیوں کہ حکومت نے بھی سخت SOP پر عمل درآمد کا حکم دیا ہوا ہے۔ سینما مالکان اور حکومت کے غیر سنجیدہ رویے نے فلم سازوں کو سخت مایوس کیا ہوا ہے۔
ایسی بدترین صورتِ حال میں بھی کچھ دیوانے فلم ساز اور ہدایت کار میدان عمل میں اتر گئے ہیں۔ انہوں نے اپنی فلمیں سینما گھروں کی زینت بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ معروف پروڈیوسر فضا علی مرزا نے بہادری اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی فلم رواں ماہ میں ریلیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کی پروڈیوس کردہ فلم ’’کھیل کھیل‘‘ میں فلموں اور ڈراموں کی معروف اداکارہ سجل علی اور نئی نسل کے ابھرتے ہوئے اسٹار بلال عباس خان پہلی مرتبہ سینما اسکرین پر ایک ساتھ جلوے بکھیرتے ہوئے نظر آئیں گے۔
یاد رہے کہ سجل علی اور فیروز خان کو سلور اسکرین پر جیو فلمز نے ’’کتنی حسین ہے زندگی‘‘ میں متعارف کروایا تھا۔ اب سجل علی، بلال عباس خان کے ساتھ جلوہ افروز ہوں گی۔ سجل علی نے بھارتی فلم ’’موم‘‘ میں بالی وڈ کی سپر اسٹار سری دیوی کے مدمقابل جَم کر اداکاری کی اور خُوب داد موصول کی تھی۔ بالی وڈ میں سجل علی کے بہت چرچے ہوئے تھے۔ اس فلم کے بعد سجل علی نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ وہ شہرت کی بلندیوں کو چھوٹی رہیں۔ چار پانچ سال کے وقفے کے بعد اب دیکھنا یہ ہے کہ سینما اسکرین پر ان کا جادو کتنا چلتا ہے۔
ماضی میں فلم انڈسٹری جب مسائل کا شکار تھی تو شعیب منصور اور جیو نے فلم ’’خدا کے لیے‘‘ بناکر اسے رواں دواں کردیا تھا۔ پاکستان فلم انڈسٹری کو ایک مرتبہ پھر کم بجٹ کی معیاری فلموں کی ضرورت ہے۔ سینما مالکان کو چاہیے کہ وہ عوام کو سستی تفریح سے محروم نہ کریں اور ٹکٹیں سستی کریں۔ اگر ہم ماضی پر ایک نظر ڈالیں تو سینما گھروں کے ٹکٹ بہت سستے اور عام آدمی کی دسترس میں تھے۔ فلم بین فیملی کے ساتھ باآسانی فلمیں دیھکتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ صرف کراچی میں اتنی بڑی تعداد میں سینما گھر تھے، جتنے آج پورے ملک میں نہیں ہیں۔
صرف ایم اے جناح روڈ پر درجنوں سینما گھر ہوا کرتے تھے۔ پاکستان فلمیں کروڑوں کا بزنس کرتی تھیں۔ ہم نے جدید سینما گھر تو بنالیے، لیکن فلم بینوں کے لیے آسانی پیدا نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سینما گھروں سے دور ہوتے چلے گئے اور سینما انڈسٹری مسائل کا شکار ہوتی جارہی ہے۔ سب کو مل کر سینما انڈسٹری کے ٹائٹینک کو ڈوبنے سے بچانا ہوگا۔ ورنہ ایک مرتبہ پھر ہم اچھی اور معیاری فلموں سے محروم ہوجائیں گے۔ جب سینما گھر ہی نہیں ہوں گے، تو فلمیں کہاں ریلیز کی جائیں گی۔ ڈیجیٹل مارکیٹ میں آگے جانے کے لیے ہمیں ابھی بہت وقت چاہیے۔ جب فلمیں سینما گھروں میں بزنس کریں گی، تو ڈیجیٹل مارکیٹ میں بھی جگہ بنا پائے گی۔ حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ فلم ایک طاقت ور میڈیم ہے، اس پر توجہ نہ دی تو ہم دنیا سے پیچھے رہ جائیں گے۔
ہم نے قومی ائیر لائنز، پاکستان ریلوے سمیت کئی اداروں پر توجہ نہیں دی، توان کی صورتِ حال آج ہم سب کے سامنے ہے۔ سینما اور فلم انڈسٹری کا بھی یہی حال ہوگا، وہ بھی کیا خُوب صورت دور تھا، جب نیو کراچی سے ٹاور تک سینما گھروں کو نئی فلم کی ریلیز کے موقع پر برقی قمقموں سے دُلہن کی طرح سجایا جاتا تھا۔ سب سے زیادہ سینما کراچی کے علاقے صدر میں ہوا کرتے تھے، سینما گھروں کا ایک جال بچھا ہوا تھا، بدھ کے روز خواتین کے لیے فلموں کے خصوصی شوز ہوا کرتے تھے۔ سینما گھروں میں قائم کینٹین کا اپنا ایک حُسن تھا، فلم بینوں کی پان کے کیبن میں حسین یادیں قید ہیں، نئی فلموں کی ریلیز کے موقع پر خُوب ہنگامہ ہوتا تھا، ٹکٹوں کی آگے لگائی اور ٹکٹیں بلیک ہوا کرتی تھیں۔
سینما گھروں میں پاکستان کے سیاست دانوں نے ہمیشہ گہری دل چسپی لی، سابق صدر آصف علی زرداری کا بھی سینما انڈسٹری سے تعلق رہا۔ لندن میں اداکاری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے اداکار طلعت حسین نے کراچی کے ایک سینما گھر میں ٹکٹ چیکر کے طورپر کام کیا۔ قائد اعظم کی بہن مادرِ ملّت فاطمہ جناح نے نشاط سینما کا افتتاح کیا، جسے چند برس قبل نذرِ آتش کر دیا گیا، اب وہ کھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے۔ سستی تفریح کی وجہ سے فلمیں اور ان کے گیت سپرہٹ ہوا کرتے تھے، اب ایسا نہیں ہوتا ہے۔
دوسری جانب دیکھیں تو جدید سینما گھروں کی ابتداء ندیم مانڈوی والا نے لاہور کے ڈی ایچ اے سینما سے کی اور اس میں سب سے پہلے جیو اور شعیب منصور کی فلم ’’خدا کے لیے‘‘ نمائش کے لیے پیش ہوئی تھی۔
تھری ڈی سینما کا آغاز بھی کراچی سے ہوا، ایک زمانے میں کراچی کی گلی کوچوں میں پردے پر فلموں کی نمائش ہوتی تھی، پردے کے ایک جانب مرد حضرات اور دوسری جانب خواتین بیٹھ کر فلموں سے محظوظ ہوتی تھیں۔ یہ حقیقت ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد فلم انڈسٹری نے تیزی کے ساتھ ترقی کی، فلم سازی کے کام میں تیز رفتاری کے سبب یہاں نئے سینما ہاؤسز کی ضرورت کو شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا، جس کے نتیجے میں پُورے ملک میں نئے سینما تعمیر ہونے لگے۔
شہر کراچی میں یہ تعداد 126تک پہنچ گئی تھی۔کراچی کا شمار پاکستان میں سب سے زیادہ سینما گھر والے شہر میں ہوتا تھا۔ آج 2021ء میں یہ صورتِ حال ہے کہ کوئی بھی پاکستانی فلم صرف 80/70 سینما گھروں میں ریلیز کی جاتی ہے، جب کہ بھارت میں نئی فلم 5 ہزار سینما گھروں کی زینت بنتی ہے۔ فلم انڈسٹری کی بحالی سینما انڈسٹری کی ترقی سے مشروط ہے۔ فلم سازاور سینما مالکان مل کر انڈسٹری کو موجودہ بُحران سے نکال سکتے ہیں۔