• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک وقت تھا کہ شاگرد کا تمام انحصار اپنے استاد پر ہوتا تھا اور استاد بھی اپنے شاگرد کے ساتھ ایک مثالی تعلق رکھتا تھا۔ وہ جہاں اپنے شاگرد کو نصاب کی کتب پڑھاتا تھا وہاں وہ اُسے اپنی حرکات و سکنات اور دعاؤں سے ادب و احترام کا خاموش درس بھی دے رہا ہوتا تھا۔ مجھے بہت سے اساتذہ سے پڑھنے، سیکھنے ، ان سے بات چیت کرنے، ان کی محفل کا حصہ بننے یا انہیں کسی تقاریب کے دوران سننے کا موقع ملا لیکن کچھ اساتذ ہ ایسے ہوتے ہیں جوذہن پر اپنے گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں،جو زندگی کے آخری دم تک وہ یاد رہتے ہیں، ایسے ہی ایک استاد کی مار میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن استادمحترم نے مجھے بہت مارا ۔میں نے دل میں انہیں بہت برا بھلا کہا لیکن یہ میرے بچپن کی سوچ تھی ،آج جب اُن کے بارے میں سوچتا ہوں تو واقعی انہوں نے مجھے بہت کچھ سکھایا۔

ایک دن وہ مجھے ملے "سائیکل" پر تھے ، کافی بزرگ ہو چکے تھے۔ اسکول کے زمانے میں دیکھا تھا کہ ان کے پاؤں شوگر کی وجہ سے سوجے رہتے تھے، بعض اوقات جوتوں کے بغیر ہی سائیکل چلاتے تھے۔آج بھی اُن کے پاؤں سوجے ہوئے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی آواز دی ۔میں نے اُن کی طرف دیکھا ، حیران ہوا کہ انہوں نے مجھے پہچان لیا ہے۔میں گاڑی سے تیزی سے اُترا اور بھاگ کر اُن کے پاس پہنچا۔ وہ بہت خوش ہوئے۔

میں نے انہیں سلام کیا۔ میرے سلام کاجواب دینے کے بعد ایک دم ہاتھ جوڑ کر کمزور آواز میں بولے، بیٹا! مجھے معاف کر دینا، میں تمہیں بہت مارتا تھا لیکن اس لیے مارتا تھا کہ تم کچھ بن جاؤ اور آج تمہیں دیکھ کر خوشی سےرو پڑا ہوں کہ میرا شاگرد آج بڑی گاڑی میں بیٹھا ہے ۔بیٹا تم میری خوشی کا اندازہ نہیں کر سکتے ۔ یہ کہہ کر وہ پھر رو پڑے ۔میرے سینے پر گھونسہ سا لگا کہ میں ان کے بارے میں کیا سوچتا تھا۔ 

میں نےتڑپ کر انہیں گلےسے لگا لیا ۔سڑک پر آتے جاتے لوگ یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ہم دونوں استاد، شاگرد گلے لگ کر روتے رہے۔ ان کے سینے سے آتی عجب سی مہک تھی ،مجھے سکون محسوس ہو رہا تھا ۔ راہ چلتے جس بندے کو بھی پتا چلا کہ یہ استاد شاگرد ہیں، وہ بھی ہمارا پیار دیکھ کر رو پڑے۔بات یہ ہے کہ آپ اچھے نمبرز نہ بھی لیں ،اچھے گریڈز نہ بھی لیں صرف اپنے استاد کا ادب کریں۔

اپنے استاد سے یہ "ملاقات" میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ مجھے "تراشنے" والے وہی تو تھے ۔میں ایک گمنام ,بے شکل پتھر تھا۔ انہوں نے مجھے تراشا ، سنوارا۔دور حاضر میں رفتہ رفتہ اساتذہ کے ادب و احترام میں کمی آتی جارہی ہے غالباً یہی وجہ ہے کہ ہم اخلاقی پستی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، جب کہ اساتذہ کا ادب و احترام اور ان کی عزت و تکریم کیے بغیر ہم معاشرے میں کبھی بھی اعلیٰ مقام حاصل نہیں کر سکتے، استاد اور شاگرد کے درمیان صدیوں پرانی جو بے لوث اور پُرخلوص رشتہ دیکھنے کو ملتا تھا، اب وہ کافی حد تک ماند پڑچکا ہے۔ طلباء سے میری گزارش ہے کہ ، اپنےاستاد کا احترام کریں، کیوں کہ یہی "کامیابی" کی "سیڑھی"ہیں۔ (ایک شاگرد)

تازہ ترین