احسن اقبال
والدین بچوں کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتے ہیں۔ جب بچہ پہلا قدم اُٹھاتا ہے تو والدین کی خوشی کی انتہا نہیں ہوتی۔ یوں کبھی وہ گرتا ہے ،کبھی سنبھلتا ہے، رفتہ رفتہ پروان چڑھتا ہے۔ بچپن و لڑکپن کا زمانہ شاہانہ ہوتا ہے لیکن جیسے ہی بلوغت کی حد کو پہنچتا ہے ، جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے، تو اس کی سوچ میں تبدیلیاں آنا شروع ہو جاتی ہے، یہی وہ دور ہوتا ہے جس میں مستقبل کی فکر شروع ہوجاتی ہے، اور نوجوان محسوس یا غیر محسوس انداز سے اپنے مستقبل کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔
لیکن یہ یاد رکھیں کہ مستقبل کسی ا سٹیشن پر آنے والے گاڑی کا نام نہیں، جس کے انتظار میں مسافر بیٹھے ہوتے ہیں، بلکہ مستقبل ایک ایسی منزل ہے، جس کی طرف دھیان سے دھیرے دھیرے قدم بڑھانے ہوتے ہیں، منصوبہ بندی سے چلنا پڑتا ہے۔ محض دیکھا دیکھی کسی پرکشش منزل کی خواہش رکھنے والےنوجوان اکثر راہ سے بھٹک جایا کرتے ہیں۔ بعض نوجوان تو مستقبل کو خیالی دنیا میں دیکھتے ہیں ، جہاں ہر سہولت اور عیش و آرام ہوتا ہے ۔
سہانے خواب دیکھنا برا نہیں ہے لیکن خواب عمل سے خالی یہ غلط ہوتا ہے۔ مستقبل سنوارنے کے لیے جدوجہد اور محنت کرنی پڑتی ہے۔ منزل پانےکے لیے بے شک بہت سی دشواریاں اور تکالیف اُٹھانی پڑتی ہیں، لیکن ثابت قدمی تمام دشواریوں کا خاتمہ کردیتی ہے۔ منزل پر کامل یقین ،کامیابی کا بڑا حصہ ہے۔ اگر ترقی کرنا اور وہ سب کچھ حاصل کرنا، جس کی آپ کو خواہش ہے محض خواب ہوجائے تو سب ہی خوابوں کی دنیا کے شہزادے بن کر رہ جائیں۔ایسے نہیں ہوتا کہ آج ہم خواب دیکھیں اور کل پورا ہو جائے۔
یہ سفر طویل ہوتا ہے اس کی تکمیل کےلئے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔ ہم اپنے ارد گرد ایسے بہت سے نوجوانوں کو دیکھتے ہیں جو تابناک مستقبل کی تلاش میں سر گرداں رہتے ہیں، مگر جب اُن سے پوچھیں کہ آگے(مستقبل) کا کیا ارادہ ہےتو اُن کا جواب سن کر لگتا ہے کہ خوابی دنیا میں رہ رہے۔ بہت سے نوجوان نامعلوم مستقبل کی طرف رواں دواں ملتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ان کا مستقبل اچھا ہو، مگر کیسے ہو؟
اس کا جواب ان کے پاس نہیں ہوتا، وہ تذبذب کا شکار ہوتےہیں، کبھی ایک ٹہنی پر تو کبھی دوسری شاخ پر ، اس طرح وہ محض ایک ایسے تصورراتی اور تخیلاتی مستقبل کے پیچھے لگے ہوتے ہیں، جس کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ وہ اپنا مسقتبل ہر گلی چوراہے میں بھی پاتے ہیں، مگر گزر جاتے ہیں، وہ انہیں ہر موڑ پر ملتا ہے مگر بکھر جاتا ہے، وہ اسے جان کر بھی انجان بن جاتے ہیں، وہ کسی کے مستقبل کو اپنے حال پر قیاس کرتے ہیں، اور اپنے حال کو اپنے ماضی میں کھپا دیتے ہیں، کچھ نوجوان آج کیا ہے۔۔؟ وہ صرف اتنا سوچتے ہیں۔ کل کیا تھا۔۔؟ کیا ہوگا اس طرف دھیان نہیں دیتے۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنا مستقبل سنوارنے میں ناکام رہتے ہیں۔
نوجوانو! یاد رکھیں مستقبل سنوارنےکے لیے محنت ،جوجہد اور پختہ ارادہ ضروری ہے۔ اس کی ایک مثال وائلڈ فوٹو گرافر’’ایلن میکفیڈین ‘‘کی ہے ، جو کنگ فشر پرندے کی ایک پرفیکٹ شاٹ لینے کے لئے اپنا کیمرالے کرایک تالاب کے پاس روز بیٹھ جاتا، کبھی پرندہ آتا، کبھی نہیں لیکن وہ شارٹ نہ لے سکا۔ اس طرح کافی وقت بیت گیا۔ دوستوںنے اسےمشن ترک کرنے کا کہا لیکن وہ اپنے ارادے سے نہیں ہٹا، آخر کار وہ لمحہ آگیا جب وہ ایک پرفیکٹ شاٹ لینے میں کامیاب ہوگیا۔
اس ایک فوٹو کےلئے اسے پورے 6 سال انتظار کرنا پڑا اوراس اثنا میں اسے 7,20000 تصویریں کھینچنی پڑیں، تب جاکر اسے کامیابی ملی ۔ آج اگر دنیا ایلن فوٹو گرافر کو جانتی ہے تو صرف اس ایک تصویر کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے حصول کےلئے جتنی جدوجہد اس نے کی اور جس مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی منزل کا دیوانہ وار تعاقب کیا اور دنیا کےلیے ایک مثال بن گیا۔ آپ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ یقیناََ کر سکتے ہیں۔
آپ کو چاہیے کہ کسی موٹیویشنل کو سنتے ، پڑھتے رہا کریں، یہ لوگ ہمت کو بڑھاتے ہیں، مثالوں سے سمجھاتے ہیں، ان کے پاس ہر طبقے اور ہر قسم کے انسان کی داستانیں ہوتی ہیں،(Dale Breckenridge Carnegie) ڈیل بریکن ریج کارنیگی، جنہیں ڈیل کارنیگی (Dale Carnegie ) کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک مشہور امریکی مصنف ہیں، کامیاب لوگوں کی بہت سی داستانیں انہوں نے قلم بند کی ہیں، وہ ایک ادیب ’’سنکلیر لیوس‘‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’میں نے ان سے ان کے کام کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا ،’’ اپنی ابتدائی محنت کا ذکر کرنے والے مجھے برے لگتے ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ بہت سوں نے تو محنت کی ہی نہیں ہوتی، اور پیشہ چاہے کو ئی بھی ہو اس میں قدم جمانے کے لیے ہر انسان کو شروع میں سخت محنت کی ضرورت ہوتی۔‘‘ نوجوانوں کو بھی اپنی مستقبل کی طرف بڑھنے ، منزل اور مقصد کو متعین کرنے میں ابتدائی مشکلات کا سامنا تو ہو گا، لیکن رفتہ رفتہ منزل قریب سے قریب تر ہوتی چلی جائے گی۔
اس لیے ہمت ، محنت سے اور سوچ سمجھ کر آگے بڑھیں۔ دروازے آپ کے لیے کھلے ہیں لیکن ہر دروازے سے داخل ہونے کی کوشش نہ کریں، آپ کو کون سے دروازے سے داخل ہونا ہے، یہ آپ سے بہتر کون جا سکتا ہے۔ دوسرے مشورے بہت دیں گے ، مگر ضروری نہیں کہ آپ اُن کے مشوروں کو من وعن مانیں، مستقبل پر نظریں تو آپ کی ہیں، کیا کام آپ کا مستقبل روشن کرسکتا ہے، اس کا فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے، جس کے لیے اعتماد ضروری ہے، اسی سے آپ آگے بڑھیں گے، بس خیالی دنیا نے نکل آئیں۔