جدید دنیا اگرچہ بہت حد تک سکڑ گئی ہے مگر اس کے باوجود ہمارے لوگوں کے دلوں میں ولایت کا رومان نہ صرف تازہ ہے بلکہ ہزاروں لاکھوں لوگ ہر سال اپنی زندگی کو داؤ پر لگاکر صحرائوں، سمندروں، پہاڑوں اور جنگلوں کی خاک چھان کر یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس جدوجہد میں ہزاروں لوگ موت کی آغوش میں بھی چلے جاتے ہیں اور ہزاروں کسی نہ کسی طرح یورپ پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنھوں نے اس قسم کے جوکھم اٹھائے، بے سروسامانی کی حالت میں یورپ پہنچے اور پھر اپنی محنت اور لگن سے مالی طور پر کافی آسودہ ہوگئےاور اپنی زندگیوں میں کامیاب رہے۔ ان کامیابیوں کے باوجود مگر ان میں سے اکثر لوگ نہ صرف یہ کہ اپنے آبائی وطن کو یاد کرتے رہتے ہیں بلکہ ہر وقت اس کے رومان میں ڈوبے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس ان ہی لوگوں کے دوست اور احباب کی ایک قابلِ ذکر تعداد ولایت کی چکا چوند سے مرعوب ہے اور اس کے خوابوں کی معیت میں ڈوبی رہتی ہے۔ اکبر الہ آبادی مرحوم نے کیا خوب کہا ہے:
مرعوب ہو گئے ہیں ولایت سے شیخ جی
اب صرف منع کرتے ہیں دیسی شراب سے
طاہر جمیل نورانی صاحب آدھی صدی سے برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں مقیم ہیں جہاں وہ ایک کامیاب زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے معاصر اردو روزناموں کیلئے تسلسل کے ساتھ لکھ رہے ہیں۔ حال ہی میں ان کے کالموں کے مجموعے 'ولایت نامہ کی تقریبِ رونمائی گورنر ہاؤس لاہور میں گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کی صدارت میں منعقد ہوئی جسے استاد محترم جناب پروفیسر شفیق جالندھری کی سربراہی میں فعال ایلاف کلب کے زیر اہتمام منعقد کیا گیا۔ نورانی صاحب کے کالموں کے مجموعے میں مجھے یہ حیرت انگیز اور خوشگوار چیز نظر آئی کہ وہ اپنے کے اختیار کردہ وطن انگلستان اور آبائی وطن پاکستان دونوں کی محبت سے معمور ہیں جس کا اظہار ان کے کالموں میں جابجا نظر آتا ہے۔ انگلستان میں رہتے ہوئے میں ذاتی طور پر اس بات کا سخت قائل ہوں کہ وہاں کے مسلمانوں کو وہاں کے ماحول میں رہ کر اپنے لئے اور اپنی آنے والی پیڑھیوں کیلئے رستے تلاش کرنے کی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ نورانی صاحب کے کالموں سے میں گاہےگاہے محظوظ ہوتا رہا ہوں مگر انہیں پہلی بار کتابی شکل میں دیکھ کر یک گونہ اطمینان سا ہوا کہ انھوں نے یادوں اور خیالات کے اس ذخیرے کو اکھٹا کرکے قارئین کیلئے ایک سودمند مجموعہ تیار کیا ہے جس میں انگلستان اور پاکستان دونوں ممالک کے بارے میں ان کی آرا اور آبزرویشنز پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان تحریروں میں جہاں انگلستان میں بسنے والے پاکستانیوں اور کشمیریوں کی زندگی کے بارے میں دلچسپ معلومات پڑھنے کو ملتی ہیں وہیں آپ ان کی آنے والی نسلوں کی مشکلات اور معاملات کا بھی احاطہ کرتے ہیں۔ ان کے کالموں میں برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کے سماجی، معاشرتی اور سیاسی معاملات کو سمجھنے میں رہنمائی ملتی ہے بلکہ وہ ایک دردمند اور حساس انسان ہونے کے ناطے قدم قدم پر ان کی رہنمائی بھی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی تحریروں کی شگفتگی بھی قارئین پر ایک اچھا تاثر چھوڑ جاتی ہے۔
برطانیہ میں اردو صحافت کے حوالے سے نورانی صاحب کے کالم ’’برطانیہ میں خوشحال پاکستانی صحافی‘‘ نہ صرف پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے بلکہ اس پر غور و فکر کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف برطانیہ میں پاکستان نژاد صحافیوں کے مسائل کو سمجھا جائے بلکہ ’’پاکستانی صحافت‘‘ کا بھی احاطہ کیا جائے جو میری ناقص رائے میں بہت منفرد ہے۔ آپ اس کی عکاسی کچھ اس طرح سے کرتے ہیں:’’ایک صحافی اور کالم نگار کو جو 'ٹور اور مزے پاکستان میں ملتے ہیں وہ یہاں نہیں۔ وہاں تو مائع سے اکڑا ہوا سفید شلوار قمیض اور جیکٹ یا پھر کی 'مارکس اینڈ سپنسرکی شرٹ اور 'ٹائی کار کے پیچھے سبز اور سنہرے رنگ میں لکھے لفظ Press کی نمبر پلیٹ دیکھتے ہی اپنی 'پلس کے بڑے بڑے تھانیداروں کے ہاتھ سلیوٹ کیلئے نہیں اٹھتے بلکہ اس کیلئے راستے بنادیئے جاتے ہیں۔ جم خانہ، اسلام آباد کلب اور ملک کے فور اسٹار ہوٹلوں کے دروازے، کار پارکس اور ہوٹلوں میں ’’بوفے‘‘مخصوص قسم کے صحافیوں اور کالم نگاروں کیلئے کھول دیئے جاتے ہیں‘‘۔
’’ولایت نامہ‘‘ ایک حساس انسان کے جذبات اور احساسات کی ایک دلچسپ دستاویز ہے جس سے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع مل سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نورانی صاحب کو لمبی اور فعال زندگی عطا کرے تاکہ ہمیں تا دیر ان کی نگارشات سے محظوظ ہوتے رہنے کا موقع مل سکے ۔