گزشتہ دنوں کراچی میں چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں (SMEs) کو 27ممالک کے بلاک یورپی یونین کی جی ایس پی پلس ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کی سہولت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کیلئے مقامی ہوٹل میں EU پاکستان بزنس فورم کا انعقاد کیا گیا جس میں میرے علاوہ گورنر سندھ عمران اسماعیل، وزیراعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق دائود، پاکستان میں یورپی یونین کی سفیر Andrulla Kaminara کی قیادت میں پاکستان میں ڈنمارک کی سفیر Lis Rosenholm، سوئیڈن کے سفیر Henrik Persson، پولینڈ کے کمرشل قونصلر Konrad Duda، یورپی یونین کے سینئر معاشی ماہر حسین اے افتخار، بزنس کمیونٹی سے کراچی چیمبر کے صدر محمد ادریس، سابق صدر شارق وہرہ، ایمپلائرز ایسوسی ایشن کے صدر اسماعیل ستار، سابق صدر مجید عزیز، ریڈی میڈ گارمنٹس ایسوسی ایشن کے چیف کوآرڈی نیٹر اعجاز کھوکھر، خورشید برلاس اور سونینا ساجوانی نے شرکت کی۔ اس سے پہلے پاکستان میں یورپی یونین کمیشن اسلام آباد اور لاہور میں ایس ایم ایز پر 2فورم منعقد کرچکا ہے جبکہ کراچی میں یورپی یونین کا تیسرا فورم تھا۔ فورم میں مختلف سیکٹرز فاسٹ موونگ کنزیومر گڈز، آم، کھجور، کاسمیٹکس، فا ر ما سیو ٹیکل ، ٹیکسٹائل، لیدر، جیمز جیولری اور ماربل پر رائونڈ ٹیبل منعقد کی گئیں۔ ٹیکسٹائل کی رائونڈ ٹیبل میں میرے ساتھ پاکستان کے ممتاز ایکسپورٹرز نے شرکت کی جس کے ماڈریٹر عمر بن زاہد تھے۔ فورم میں دی گئی سفارشات یورپی یونین کمیشن جبکہ پاکستان میں وزیراعظم اور وزیر تجارت کو پیش کی جائیں گی۔
ایس ایم ایز سیکٹر کسی بھی ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے جو سب سے زیادہ ملازمتیں فراہم کرتا ہے۔ کوریا، چین، بھارت، بنگلہ دیش اور ویت نام نے ایس ایم ایز کی گروتھ سے ترقی حاصل کی ہے۔ پاکستان میں ایس ایم ایز کا جی ڈی پی میںحصہ 40فیصد ہے جو ملک میں 80فیصد ملازمتیں فراہم کررہا ہے جبکہ یہ سیکٹر چین میں 82فیصد اور بھارت میں 35فیصد ملازمتیں فراہم کرتا ہے۔ دنیا میں صنعتی ترقی کرنے والے ممالک بھارت میں ایس ایم ایز کا حصہ80فیصد، چین میں 99 فیصد اور ملائیشیا میں 90فیصد ہے۔ اِسی طرح پاکستان کی ایکسپورٹ میں ایس ایم ایز کا حصہ 26فیصد، بھارت کا 40فیصد، چین کا 68فیصد اور جاپان کا حصہ 38فیصد ہے۔ پاکستان میں چھوٹے اور درمیانے درجے کی 33لاکھ صنعتیں ہیں۔ پاکستان میں ایس ایم ایز کی گروتھ میں حائل رکاوٹوں میں سب سے بڑی رکاوٹ بینکوں کا SMEs کو بغیرکچھ گروی رکھے قرضہ نہ دینا ہے۔ جون 2021ء میں بینکوں کی SMEs کولینڈنگ 8.7فیصد تھی جو جولائی میں کم ہوکر 5.3فیصد رہ گئی ہے تاہم اسٹیٹ بینک نے بینکوں کے ساتھ ’’ایس ایم ایز آسان فنانس اسکیم‘‘ متعارف کرائی ہے تاکہ ایس ایم ایز کو کیش فلو کی بنیاد پر قرضے فراہم کئے جاسکیں۔ یہاں مجھے یہ کہنے میں جھجک نہیں کہ ایس ایم ایز سیکٹر کے فروغ کیلئے 1998ء میں قائم کئے گئے ادارے SMEDA اور SMEs بینک، ایس ایم ایز کے فروغ میں ناکام ہوگئے ہیں۔ فورم میں مشیر تجارت عبدالرزاق دائود نے تعمیرات اور دیگر شعبوں کی طرح ایس ایم ایز سیکٹر کو بھی رعایتی فنانسنگ کی سفارش کی ہے۔
پاکستان کی موجودہ 10سالہ جی ایس پی پلس سہولت 31دسمبر 2023ءکوختم ہورہی ہے اور یکم جنوری 2024ءسے نئی 10سالہ جی ایس پی پلس سہولت کیلئے پاکستان کو دوبارہ یورپی پارلیمنٹ میں درخواست دینا ہوگی جبکہ اس دوران ڈیوٹی فری سہولت حاصل کرنے کیلئے پاکستان کو انسانی اور اقلیتوں کے مذہبی حقوق کیلئے سخت اقدامات کرنا ہوں گے اور موجودہ 27کے بجائے 33شرائط پر عملدرآمد کرنا ہوگا جن میں انسانی اور اقلیتوں کے مذہبی حقوق کے علاوہ معذور افراد اور بچوں کے حقوق، بین الاقوامی جرائم، گڈگورننس، IPR اور گلوبل وارمنگ جیسے معاہدے بھی شامل کئے گئے ہیں۔ ان معاہدوں پر عملدرآمد نہ کرنے اور انسانی و اقلیتی حقوق کی خلاف ورزی کی صورت میں یورپین پارلیمنٹ کو GSP سہولت قبل از وقت واپس لینے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ یورپی یونین کی سفیرنے بتایا کہ پاکستان کی یورپی یونین کوایکسپورٹ 7.5 ارب ڈالر ہے اور جی ایس پی پلس سہولت کے تحت پاکستان کی یورپی یونین کو ایکسپورٹ میں 65فیصد اضافہ ہوا ہے جس میں 70فیصد سے زائد ٹیکسٹائل مصنوعات ہیں لیکن ایس ایم ایز کی ایکسپورٹ کو فروغ دے کر اِسے دگنا کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ GSP پلس قوانین پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں فروری 2020ءمیں سری لنکا اور غیر معیاری حفاظتی انتظامات کے باعث گارمنٹس فیکٹری میں آتشزدگی کے نتیجے میں ایک ہزار سے زائد مزدوروں کے جھلس کر جاں بحق ہونے پر بنگلہ دیش سے جی ایس پی پلس سہولت واپس لے لی گئی تھی لہٰذا پاکستان کو یورپی یونین کسٹمرز کیلئے Make in Pakistan معیاری برانڈ بنانا ہوگا۔ EU سفیر نے مجھے بتایا کہ وہ اس سلسلے میں آئندہ ہفتے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور سے بھی ملاقات کررہی ہیں۔ میں نے ٹیکسٹائل کی رائونڈ ٹیبل میں یورپی یونین کمیشن کو تجویز دی کہ ٹیکسٹائل اور دیگر مصنوعات کے علاوہ فارماسیوٹیکل اور چاول کی ایکسپورٹ کو بھی جی ایس پی پلس ڈیوٹی فری سہولت میں شامل کیا جائے۔ میں نے بتایا کہ کارگو فریٹ میں 600فیصد اضافے کے پیش نظر پاکستان کی ترکی کے زمینی راستے یورپ ایکسپورٹ یقینی بنائی جائے کیونکہ زمینی راستے سے پاکستان سے استنبول کارگو صرف 12دن میں پہنچتا ہے۔ میری مشیر تجارت عبدالرزاق دائود کو تجویز ہے کہ وہ جی ایس پی پلس سہولت کی تجدید کیلئے پاکستان میں یورپی یونین کےممالک کے سفیروں سے مسلسل ملاقاتیں کرکے انہیں جی ایس پی پلس معاہدے کے قوانین پر حکومتی اقدامات سے آگاہ کریں تاکہ بھارت کی طرف سے کئے جانے والے منفی پروپیگنڈے کو زائل کیا جاسکے۔