تجھے کیا خبر مرے بے خبر مرا سلسلہ کوئی اور ہے
جو مجھی کو مجھ سے بہم کرے وہ گریز پا کوئی اور ہے
مرے موسموں کے بھی طور تھے مرے برگ و بار ہی اور تھے
مگر اب روش ہے الگ کوئی مگر اب ہوا کوئی اور ہے
یہی شہر شہر قرار ہے تو دل شکستہ کی خیر ہو
مری آس ہے کسی اور سے مجھے پوچھتا کوئی اور ہے
یہ وہ ماجرائے فراق ہے جو محبتوں سے نہ کھل سکا
کہ محبتوں ہی کے درمیاں سبب جفا کوئی اور ہے
ہیں محبتوں کی امانتیں یہی ہجرتیں یہی قربتیں
دیے بام و در کسی اور نے تو رہا بسا کوئی اور ہے
یہ فضا کے رنگ کھلے کھلے اسی پیش و پس کے ہیں سلسلے
ابھی خوش نوا کوئی اور تھا ابھی پر کشا کوئی اور ہے
دل زود رنج نہ کر گلہ کسی گرم و سرد رقیب کا
رخ ناسزا تو ہے روبرو پس ناسزا کوئی اور ہے
بہت آئے ہمدم و چارہ گر جو نمود و نام کے ہو گئے
جو زوال غم کا بھی غم کرے وہ خوش آشنا کوئی اور ہے
یہ نصیرؔ شام سپردگی کی اداس اداس سی روشنی
بہ کنار گل ذرا دیکھنا یہ تمہی ہو یا کوئی اور ہے