وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں ایک وفاقی وزیر کی بڑھتی ہوئی ’’سیاسی اہمیت‘‘ کے حوالہ سے کئی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔یار لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’مقتدر حلقوں‘‘ میں انہیں ’’متبادل وزیر اعظم‘‘ کی صلاحیتیں رکھنے والا قرار دیا جا رہا ہے۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ مذکورہ وفاقی وزیر کے خاندان کو مختلف سیاسی ادوار میں ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کی نمائندگی کرنے کا بھی ’’اعزاز‘‘حاصل رہا ہے ۔
جنوبی پنجاب کے مرکزی شہر سے تعلق رکھنے اس وزیر کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ مستقبل میں ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ بننے کی خواہش کو بھی ایک عرصہ سے سینے میں سجائے بیٹھے ہیں۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ’’سفارتی رابطوں‘‘ سے لیکر پارلیمانی سیاست کے معاملات تک ان کو ’’درپردہ قوتوں‘‘ کی ’’پشت پناہی‘‘ حاصل ہے ؟۔
سرکاری ملازمین کے فنڈز میں اربوں کی خردبرد
وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں ماتحت سرکاری ملازمین کے ’’بینویلنٹ فنڈز‘‘ کی اربوں روپے کی بھاری رقوم کی ’’خردبرد‘‘ کے حوالہ سے کئی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ وفاقی سیکرٹری سطح کے دو اعلیٰ ریٹائرڈ بیوروکریٹوں کا ذکر اس معاملہ میں ’’زبانِ زدعام‘‘ ہے ۔
واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ ’’مذکورہ فنڈز‘‘ کے خردبرد کی تحقیقات کرنے والے ایک ’’خفیہ ادارے‘‘نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ دو ریٹائرڈ اعلیٰ بیوروکریٹوں نے کروڑوں روپے کی ’’مبینہ کمیشن‘‘ ہڑپ کرنے کی خاطر ایک ’’ملٹی نیشنل کمپنی ‘‘ میں ایک ارب سے زائد بھاری سرکاری رقم کی سرمایہ کاری کی تھی؟۔
عاصمہ جہانگیر کانفرنس کی بازگشت
صوبائی دارالحکومت کے سیاسی اور قانونی حلقوں میں ’’عاصمہ جہانگیر کانفرنس‘‘ نہ صرف بحث کا موضوع بنی رہی بلکہ ساری عمر انسانی حقوق کی جنگ لڑنے والی عاصمہ جہانگیر کی صدا بھی فضاء میں گونجتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ آئینی تاریخ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے عاصمہ جیلانی کیس جدوجہد کا ایک روشن باب ہے ویسے ان کی زندگی کی ’’جہد مسلسل‘‘ بھی آئین اور قانون کے محافظوں کے لئے مشعل راہ ہے ۔
علم اور ادب کے میدان میں ان کے ’’نانا‘‘ نامور ادیب مولانا احمد صلاح الدین نے انہیں روشنی فراہم کی جبکہ آئینی جدوجہد کا درس انہوں نے اپنے والد ملک غلام جیلانی سے حاصل کیا۔