(ایک بیوہ کے قلم سے)
’’زین تم کہاں رہ گئے تھے۔ کب سے تمہاری راہ دیکھ رہی تھی۔ اتنی رات کو کہاں سے آرہے ہو؟‘‘ ۔اف امی! آپ تو آتے ہی شروع ہو جاتی ہیں۔ دوستوں کے ساتھ تھا۔اب میں بچہ نہیں رہا بڑا ہو گیا ہوں۔’’ماں کے لیے اولاد سدا بچہ ہی رہتی ہے۔ اچھا کھانا تو کھا لو‘‘۔ نہیں میں نے دوستوں کے ساتھ کھا لیا تھا۔ اب میں سونے جا رہا ہوں۔ 11 بجے سے پہلے کوئی مجھے نہ اٹھائے۔ زین تین بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ بہت منتوں مرادوں کے بعد ہوا تھا،جب تک اس کے والد زندہ رہے،وہ ان کے ڈر سے کسی غلط مشغلے کا حصہ نہیں رہا۔
لیکن ان کے انتقال کے بعد زین کو کسی کا ڈر نہیں رہا۔ دوسری طرف حمیدہ بیگم پر شوہر کے بعد مصیبتوں کے پہاڑ گر پڑے۔اپنے پراے سب نے منہ پھیر لیا۔ لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری۔ ایک گورنمنٹ اسکول میں پڑھانا شروع کردیا۔ دن رات محنت کر کے اپنا اور بچوں کا پیٹ پا لا۔ تینوں بیٹیوں کو انہوں نے پرائیویٹ تعلیم دلائی۔ لیکن بیٹے کو اچھے اسکول میں داخل کروایا۔ بیٹیاں گھر کے کاموں میں ماں کا ہاتھ بٹاتی تھیں۔
بڑی بیٹی نے پارلر کا کورس کیا ہوا تھا۔وہ ایک قریبی بیوٹی پارلر میں جاب کر رہی تھی، باقی دونوں گھر میں بچوں کو ٹیوشن دیتی تھیں، اس طرح گھر کی گاڑی چل رہی تھی۔ زین کو اپنی کسی ذمہ داری کا احساس نہیں تھا۔آج وہ گھر آیا تو کچھ پریشان دکھائی دہے رہا تھا ۔ماں نے پوچھا تو ٹال دیا۔ شام میں دوستوں سے ملنے گیا تو واپس نہیں آیا۔
ماں کا رو رو کر برا حال ہوگیا۔ بہنیں الگ پریشان تھیں۔ تیسرے دن کسی نے بتایا کہ ایک لڑکا بہت بری حالت میں ملا ہے۔ یہ لوگ بھا گم بھاگ ہسپتال پہنچے، وہاں جاکر معلوم ہوا کہ ایک نیک دل آدمی زین کو اسپتال لایا ہے۔ ان صاحب کا نام اشفاق احمد تھا۔
اسپتا ل کا بل بھی انہوں نے ادا کیا۔ زین کی امی ان کابہت شکر گزار ہوئیں۔ زین کو ہوش آگیا تھا۔ حمیدہ بیگم نے اللہ کا شکر ادا کیا اور شکرانے کے نوافل ادا کئے۔ چند دن کے بعد زین ٹھیک ہو کر گھر آ گیا۔ حمیدہ بیگم نے آج اشفاق احمد کو گھر کھانے پر مدعو کیا۔ آپ کا میں کس زبان سے شکریہ ادا کروں۔ بہت بڑا احسان کیا ہے آپ نے مجھ پر، حمیدہ بیگم نے روتے ہوئے کہا۔’’ارے بہن کیسی باتیں کر رہی ہیں، میں نے تو اپنا فرض ادا کیا ہے،میں نہیں ہوتا تو اور کوئی مدد کر دیتا۔ وسیلہ تو اللہ ہی بناتا ہے‘‘۔ اشفاق احمد نے کہا، پھر زین کی طرف رخ کرکے بولے، ’’اور بھٔی ینگ مین کیسی طبیعت ہے اب کیسا محسوس کر رہے ہو؟‘‘۔
’’بیٹا آخر وہاں ایسا کیا ہوا تھاجو ان ظالموں نے تمہارا یہ حشر کر دیا؟۔’’ حمیدہ بیگم نے کہا۔ ’’امی میں نے کچھ پیسے اپنے دوستوں سے ادھار لیے تھے، وقت پر واپس نہیں کر سکا تو وہ مجھ پر دباؤ ڈالنے لگے۔ اس شام میرے انہی دوستوں نے اپنے گھر بلایا۔ تیز میوزک میں خوب ہلہ گلہ ہو رہا تھا اتنے میں کچھ دوست بدمست ہو گئے اور لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی۔میرے سامنے اپنی بہنوں کے چہرے آ گئے،میں ان سے اُلجھ پڑا۔دوستوں کو مجھ پر پہلے ہی غصہ تھا انھیں میری مداخلت پسند نہیں آئی۔وہ سب مجھ پر پل پڑے۔ آگے کیا ہوا وہ آپ کو معلوم ہے۔
ارے بیٹا! میں اسی لیے تمہیںمنع کر تی تھی کہ ایسے دوستوں کی صحبت میں نہ رہا کرو، پر تم نے میری ایک نہ سنی،،زین کی امی بولیں۔’’امی مجھے معاف کر دیں میں نے آپ کو کبھی سکھ نہیں پہنچایا،’’زین نے روتے ہوئے کہا۔ زین کی چھوٹی بہن لائبہ یہ ساری باتیں سن رہی تھی، وہ آگے بڑھی اور بولی۔ ’’امی آپ نے ہمیں پرائیویٹ پڑھایا، مگر زین بھائی کو اچھے سے اچھے تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوائی، ہر بہترین چیز بھائی کا مقدر بنی ہم نے جب بھی احتجاج کیا ،آپ نے یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ وہ تولڑکا ہے ،تم تو پرائے گھر چلی جاؤ گی وہی میرا سہارا بنے گا،اب دیکھ لیں آپ کا کتنا سہارا بنے ہیں یہ۔ ’’زین کی امی کے پاس کہنےکے لئے کچھہ نہ تھا‘‘۔ ’’سوری امی، تربیت صرف بیٹیوں کی ہی نہیں ہوتی بلکہ بیٹوں کو بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔ لائبہ نے مزید کہا۔’’بیٹا، تم بالکل ٹھیک کہہ رہی ہو‘‘۔
اشفاق صاحب نے آگے بڑھ کر کہا‘‘۔’’زین کو اپنی غلطیوں کا احساس ہو گیا ہے مجھے اُمید ہے کہ یہ اب اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھائے گا‘‘۔ ’’کیوں ینگ مین؟ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟‘‘۔’’جی انکل ،انشاء اللہ‘‘۔’’تو بس ٹھیک ہے تم اب میرے آفس میں کام کرو گے، مجھے ایک ایماندار آدمی کی ضرورت ہے‘‘۔’’کیا کہہ رہے ہیں بھائی صاحب؟’’آپ کے تو پہلے ہی ہم پر اتنے احسانات ہیں‘‘۔زین کی امی نے خوشی سے بھرپور آواز میں کہا۔ ’’آپ بار بار احسان کا بول کر شرمندہ نہ کریں۔
زین کو میں نے بیٹا بنا لیا ہے‘‘۔اشفاق احمد بولے۔چند دن بعد زین نے اشفاق احمد کا آفس جوائن کر لیا اور شام میں ایوننگ کلاسز لینے لگا ،اس طرح وہ اپنی ادھوری تعلیم بھی مکمل کر رہا تھا۔اس نے اپنے سب برے دوست چھوڑ دیے۔ کئی سال کی محنت کے بعد اس نے اپنی تعلیم مکمل کرلی۔ اس کی کام سے لگن دیکھ کر اُسےمنیجر کی پوسٹ پر ترقی دے دی گئی۔ اس عرصے میں وہ بہنوں کے فرائض سے بھی فارغ ہو گیا۔ بعد میں زین کی شادی اشفاق احمد کی خواہش پر ان کی بیٹی سے ہو گئی۔اس طرح صحیح رہنمائی سے ایک بگڑا ہوا نوجوان سیدھے راستے پر آگیا۔