• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیالکوٹ؛ سری لنکن فیکٹری منیجر کے قتل کی تفصیلات جاری

پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور کا  سیالکوٹ میں پیش آنے والے افسوسناک واقعے سے متعلق کہنا ہے کہ واقعے کی پولیس کو جب پہلی اطلاع ملی تو ہلاکت ہوچکی تھی۔

ترجمان پنجاب حکومت حسان خاور نے آئی جی پنجاب راؤ سردار کے ہمراہ سیالکوٹ واقعے پر پریس کانفرنس کی۔ 

اس دوران حسان خاور نے کہا کہ جھگڑے کا آغاز 10 بج کر 2 منٹ پر ہوا، غیرملکی شہری کی ہلاکت 11 بج کر 5 منٹ پر ہوئی، مقامی پولیس نے فوری طور پر حکام کوآگاہ کیا تھا، راستے بلاک تھے پولیس کی کوتاہی ثابت نہیں ہوئی، ڈی پی او اور ایس اپی پیدل چل کر وہاں پہنچے، سیالکوٹ واقعے میں اگر کوئی کوتاہی ہوئی تو اس کا جائزہ لیں گے۔

حسان خاور نے کہا ہے کہ آر پی او اور ڈی پی او 24 گھنٹےچھاپوں کی نگرانی کر رہے ہیں، سیالکوٹ واقعے میں ملوث 118 گرفتار ملزمان میں 13 مرکزی ملزم شامل ہیں، واقعے سے متعلق 160 کیمروں کی فوٹیج لی گئی ہیں، گرفتاریوں کے لیے 10 ٹیمیں بنائی گئی ہیں، سیالکوٹ واقعے کے مقدمہ میں دہشت گردی کی دفعات شامل ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ سیالکوٹ واقعے سے متعلق مزید معلومات بھی فراہم کی جائیں گی، تفتیش میں طے کریں گے کس ملزم کا کیا رول تھا، سارے ملزم تو قاتل نہیں ہر ملزم کا کردار طےکیا جائے گا۔

حسان خاور کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات ہمارے لیے اور ہمارے ملک کے لیے شرمندگی ہے، ہلاک ہونے والے سری لنکن شہری کی فیملی یہاں نہیں تھی، وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب خود کیس کی مانیٹرنگ کر رہے ہیں، پوسٹ مارٹم ہوچکا ہے، وزارت داخلہ سری لنکن ایمبیسی کو میت دے گی، کسی شخص سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ موبائل فونز کا ڈیٹا حاصل کیا جا،رہا ہے، سرکاری اہلکاروں کی غفلت ثابت ہوئی تو باقاعدہ کارروائی ہوگی۔

ترجمان پنجاب حکومت نے کہا کہ ابھی تک جتنی تحقیقات ہوئیں سب بتائی جا چکی، سیالکوٹ واقعے سے متعلق مزید معلومات بھی فراہم کی جائیں گی، اب تک جو کچھ کیا ہے اس کی تفصیلات شیئر کر رہے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ 160 فوٹیجز کی روشنی میں گرفتاریاں کی جائیں گی، ابتدائی رپورٹ یہی ہے کہ موقع سےایک چیز ہٹائی گئی تھی، 13 مرکزی ملزمان کی شناخت ہوچکی ہے۔

دوسری جانب پریس کانفرنس کے دوران آئی جی پنجاب راؤ سردار  کا کہنا تھا کہ فیکٹری کے اندر کوئی پولیس نہیں ہوتی، اسپیشل پروٹیکشن یونٹ فیکٹریوں کے اندر نہیں ہوتا، تفتیش میں طے کریں گے کس ملزم کا کیا رول تھا، سارے ملزموں کو قاتل نہیں ہر ملزم کا کردار طےکیا جائے گا۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ پولیس اور انتظامیہ واقعے کی مکمل تحقیقات کر رہی ہیں۔

آئی جی پنجاب راؤ سردار نے کہا کہ 24 گھنٹےسے کم وقت میں 200 سے زائد مقامات پر چھاپے مارے گئے، 13 مرکزی ملزمان نے اعترافی بیان بھی دیا ہے۔

پولیس تحقیقاتی رپورٹ

پولیس رپورٹ کے مطابق سری لنکن مینجر کو فیکٹری کے اندر ہی مار دیا گیا تھا، لاش کا زیادہ تر حصہ جلا ہوا پایا گیا۔

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق مرکزی ملزم فرحان ادریس گرفتار ہے، گرفتار ملزم جنید کو جلتی لاش کے ساتھ سیلفی لیتے دیکھا گیا تھا، میڈیا کے سامنے اعتراف جرم کرنے والے طلحہ عرف باسط کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔

پولیس رپورٹ کے مطابق ورکرز کو اشتعال دلانے والا ملزم صبور بٹ بھی گرفتار ہے۔

پنجاب پولیس کا تحقیقاتی رپورٹ میں بتانا ہے کہ گارمنٹ فیکٹری میں 13 سیکیورٹی گارڈز تعینات تھے، ملازمین نے مینیجر کو مارنا شروع کیا تو کوئی سامنے نہیں آیا۔

تازہ ترین